تازہ ترین / Latest
  Sunday, October 20th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ملازمین کی چوریاں اور منہ زوریاں

Articles , Snippets , / Wednesday, May 15th, 2024

چھوٹی چھوٹی چوریاں، بے ضرر سی چوریاں تو تقریباً تمام ملازمین ہی کرتے ہیں ہاں کچھ کم percentage ایسے ملازمین کی بھی ہے جن پہ آپ پورے ہوش و حواس اور یقین کامل کے ساتھ ایمانداری کا ٹیگ لگا سکتے ہیں الحمدللہ آنکھ کھلی ہی ملازمین کے جتھے میں. تو ہر طرح کے ملازمین سے خوب واقفیت رہی. زیادہ تر برباد گروپ آف انڈسٹریز سے تھے یعنی غربت کی گود میں جنم لے کر غربت کی ہی گود میں آنکھیں موند لینے والے؛ . بیچارے،
چوری کا مطلب ہے کسی بھی شخص کی کوی بھی چیز اس کی اجازت کے بغیر، اس کی لاعلمی میں غیر قانونی طور پر حاصل کر لینا.
چوروں کی مختلف اقساط ہیں لیکن آج ہم چوروں کی چیدہ چیدہ اقسام کا ذکر کریں. گے.
سیاسی چور. بدقسمتی سے یہ چوروں کے ٹبر میں سب سے اونچی اور مظبوط ذاتی کے چور ہیں. اور پوری دنیا پہ راج بھی انھی چوروں کا ہے.
خاندانی چور. انھیں خاندانی چور اس لیے کہتے ہیں کہ چوری چکاری ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے یہ مختلف حیلے بہانے بنا کر اپنی روزی روٹی کا سامان کر ہی لیتے ہیں.
عادی چور. یہ چوروں کی انتہائی بے ضرر سی قسم ہے یہ موقعے کی مناسبت سے اپنی روح کے اندر موجود چور کو افزائش کا موقع دیتے ہیں جیسے کسی سے بھی آنکھ بچا کے کسی کا موبائل، بٹوہ یا کوی بھی من پسند چیزپار کر لینا. شور و غوغا نہ ہوا تو مال ہضم اور اگر شور مچ گیا تو چرای ہوی چیز کو طریقے سے بھرے مجمعے میں بھی برآمد کروا کے سرخرو ہو جانا ان عادی چوروں کا خاص الخاص طرہ امتیاز ہے.
سفارشی چور. ان کا بھی درجہ ذرا اوپر کا ہی ہے یہ بھی ہم پہ، آپ پہ اور پوری دنیا پہ حکمرانی کرنے کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں.؛
دھکا شاہی کے چور. یہ چوروں کی انتہائی بدقسمت کیٹیگری ہے یہ وہ بدنصیب بچے اور بچیاں ہیں جنہیں ان کے بچپن میں ہی پلاننگ کے ساتھ اغوا کر کے بچوں کے مختلف اعضاء کاٹ کر انھیں بھیک مانگنے پہ لگا دیا ہے بچیوں کو prostitution جیسے مکروہ دھندے کی بھیانک بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے اور کچھ بدنصیب اپنے عضو تناسل کی قربانی دے کر ساری عمر ہیجڑوں کے دیار کے ہو کے رہ جاتے ہیں.
نیت بد والے چور. یہ چور بھی تقریباً ہر خاندان میں پاے جاتے ہیں یہ بدنصیب اپنے ہی والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ وراثت میں بے ایمانی کو عین عبادت سمجھ جی بھر کے بے ایمانی کرتے ہیں
چور کی سزا. چونکہ چور اپنے ایمان اور ضمیر کا سودا کر کےکسی کی چیز پہ تسلط کرتا ہے لہٰذا اسے شرم دلانے اور اسے دنیا کے سامنے نشانہ عبرت بنانے کے لیے پہلی چوری پہ دایاں ہاتھ کلای کے نیچے سے کاٹنے کا حکم ہے
دوسری دفعہ چوری کرنے پہ بایاں پاوں ٹخنے سے نیچے تک کاٹنے کا حکم ہے.
اور تیسری مرتبہ چوری کرنے پہ جیل میں بند کرنے کا حکم ہے.
یہ تمام سزائیں چوری کے خاتمے اور چور کی اصلاح کے لیے ہیں.
گھروں میں عارضی یا مستقل طور پہ رہنے والے ملازمین معمولی کھانے پینے کی چیزوں سے لیکر پہنے اوڑھنے کے کپڑوں تک، پہننے اوڑھنے کے کپڑوں سے جوتوں تک، جوتوں سے مصنوعی زیورات تک، مصنوعی زیورات سے سونے چاندی کے زیورات تک، سونے چاندی کے زیورات سے روپے پیسے کی چوری تک. سچ اگر پوچھا جاے تو موقع ملنے کی دیر ہے گھریلو ملازمین اپنے ہاتھ آنے والی کوئی بھی چیز چرانے سے باز نہیں رہ سکتے اور رنگے ہاتھوں پکڑنے پہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم نے بھی تو مالکوں کی پلیٹ میں ہی سےکھانا ہے ناں ہمارے گھر میں تو ایک باورچی ایسا بھی تھا جو مرغی کی ٹانگیں چرانے کا ماہر تھا اور پو چھنے پہ یہ ہی کہتا تھا کہ باجی مرغی تو لنگڑی تھی. تو ابھی ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کے من کے چور کو تھوڑا سا باندھ دیا ہے کہ ملازمین کو رکھنے والوں نے اپنی سیکورٹی کے لیے گھروں کے حساس مقامات پہ جا بجا اعلانیہ یا خفیہ کیمرے لگا چھوڑے ہیں جو ان وارداتیوں کو کسی نہ کسی حد تک لگام ڈالے رکھتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ہونے والی وارداتوں میں کافی حد تک کمی کا باعث بھی بنتے ہیں.
مسز خولہ کے میاں وکیل تھے پچھلے دو دن سے وہ اپنی جیب میں رکھے ہوئے ستر ہزار روپے ڈھونڈ رہے تھے مگر روپے مل کے نہ دیتے تھے. خیر کافی کھپ کھپا کے گھر میں لگے ہوے کیمروں کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوا کہ کپڑے دھونے والی ماسی نے وکیل صاحب کی جیب سے روپے نکال کر اپنی جیب میں ڈالے اور چلتی بنی یہ سب ریکارڈنگ پولیس کو دکھا کے پیسے برآمد کروا لیے گیے. ایک سنگل پیرینٹ لیڈی ڈاکٹر اپنے دو سالہ بچے کو ملازمہ کے پاس چھوڑ کے ڈیوٹی پہ چلی جاتی تھیں پچھلے چند ماہ سے بچے کی صحت کافی خراب رہنے لگی تو ڈاکٹر صاحبہ نے گھر میں کیمرے لگوا کے روزانہ کی ریکارڈنگ چیک کیں تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گیی کہ ان کے جاتے ہی کام والی بچے کو پانی میں کچھ ملا کر پلاتی بچہ سو جاتا کام والی بچے کو گود میں اٹھا کر گھر سے نکل جاتی اور لیڈی ڈاکٹر کے گھر آنے سے چند منٹ قبل وہ کام والی بچے کو لے کر گھر آ جاتی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ کام والی کسی بھیک مافیا کی سر گرم رکن تھی لیڈی ڈاکٹر سے بچے کو سمبھالنے کی تنخواہ کے علاوہ وہ بچے کے نام پہ بھیک مانگ کے بھی اپنی دیہاڑی پوری کرتی تھی. بہت سے مالک حضرات بھی ملازمین کے ساتھ اور بالخصوص female workers کے ساتھ انتہائی برا سلوک کرتے ہیں جو کبھی کبھی جان لیوا بھی ثابت ہو جاتا ہے لیکن کام والیاں بھی مالکان کو زک پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے گنوانا کفران نعمت ہی سمجھتی ہیں. چھوٹے بچوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی کی وارداتوں کی بنیاد یہی کام والیاں بنتی ہیں اور پھر اگر مالکان کسی قسم کی تحقیقات کریں تو یہ سر چڑھے اور نکے چڑھے ملازمین بدتمیزی کی انتہا وں پہ جا کے مالکان کو بلیک میل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتے.
اللہ پاک ہمیں اور آپ کو ایسے تمام چوروں اور سینہ زوروں سے بچا کے رکھے.
آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam&gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International