rki.news
محمود عالم، پی ایچ ڈی اسکال ر
پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفار، ڈاکٹر شاہد اقبا ل شعبہ اگر ون ومی، ایم این ایس یونیورسٹی آف ایگریکلچر، ملتا ن
غذائی قلت دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے لیے سب سے بڑے صحت عامہ کے مسائل میں سے ایک ہے، جوہر سال لاکھوں بچوں اور بڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ زرعی ترقی اور خوراک کی فراہمی میں بہتری کے باوجودکئی ممالک اب بھی متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں،خاص طور پر دیہی اور کم آمدنی والے علاقوں میں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 80 کروڑ سےزائد افراد مستقل غذائی کمی کا شکار ہیں۔ افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے کئی حصوں میں پروٹین ،وٹامنز اور منرلز کی کمی کے باعث بچوں کی نشوونما رک جاتی ہے۔ غذائی قلت صرف بھوک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ جسم کو درکار بنیادی غذائی اجزاء کی کمی ہے، جو صحت مند نشوونما مدافعتی نظام اور طویل المدتی بہبود کے لئے ضروری ہیں۔
اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ چند اجناس پر انحصار ہے جیسے چاول، گندم اور مکئی۔ یہ اجناس توانائی تو فراہم کرتی ہیں لیکن جسم کی تمام غذائی ضروریات پوری نہیں کرتےہیں۔ اس پس منظر ایک امید افزا متبادل کے طور پرFagopyrum esculentum Moench) میں بک وبیٹ سامنے آتا ہے۔ یہ ایک سالانہ اگنےوالا پودا ہے جو 12 سے 16 ہفتوں کے کم دورانیہ میں تیار ہوجاتا ہے اور کم زرخیز مٹی میں بھی اگنے کیصلاحیت رکھتا ہے۔ بک وہیٹ فضائی نائٹروجن کو زمین میں جذب کرنے، سبز کھاد کے طور پر استعمال ہ ونےاور مٹی میں موجود فاسفورس و پ وٹاشیم کو قابل جذب بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے علاوہ یہ مفیدحشرات اور قدرتی دشمنوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے جو سفید مکھی اور افڈ جیسے کیڑوں کو کنٹرول کرنے میںمددگار ہوتے ہیں غذائی اعتبار سے یہ بیج پروٹین تمام ضروری امینو ایسڈز، فائبر اور منرلز میگنیشیم، زنکاور آئرن سے بھرپور ہے۔ یہ اینٹی آکسیڈنٹس کا بھی اچھا ذریعہ ہے اور قدرتی طور پر گلوٹن فری ہے، اسلیے ہر طبقے کے لیے موزوں غذا ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ کم پانی، کم کیمیائی کھاد اور کم زرخیز زمین پر بھی بہترین پیداوار دیتا ہے اور 70 سے 80 دن میں تیارہوجاتا ہے۔ بلند و بالا یا پسماندہ علاقوں میں جہاں دیگر فصلیں ناکام ہوجاتی ہیں وہاں یہ کامیابی سے اگتا ہے۔اس سے دلیہ، آٹا، نوڈلز اور اسنیکس بھی بنائے جاتے ہیں جو اسکول کے بچوں کی نشو نما کے لیے ضروریغذائی اجزاء فراہم کرتا ہے، جب کہ ماؤں اور بچوں کے کے لیے پروٹین اور منرلز کا قیمتی ذریعہ ہے۔ چونکہیہ گلوٹن فری ہے، اس لیے گندم کے متبادل کے بھی بنائے کے طور پر بھی اہم ہے، خاص طور پر ان لوگوںکیلئےجنہیں گندم کے استعمال سے سیلیک بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
تاہم اپنی تمام خوبیوں کے باوجود بک وہیٹ کا استعمال دنیا کے بیشتر حصوں میں محدود ہے۔ اس کی وجوہات میں آگاہی کی کمی پراسیسن گ کی سہولیات کی عدم موجودگی اور صارفین کی ناواقفیت شامل ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق کمیونٹی کی سطح پر آگاہی، بیج کے مقامی نظام میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ بک وہیٹک و روزمرہ خوراک میں شامل کیا جا سکے۔
پاکستان میں یہ فصل گلگت بلتستان کے بلند مقامات پر کاشت کی جاتی ہے لیکن وقت کے سات ھ اس کی کاشتمیں کمی آئی ہے۔ اس کمی کی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلیاں، بجرت، زرعی طریقہ کار اور سماجی و معاشی تبدیلیاں شامل ہیں۔ اس کے برعکس ملتان جیسے میدانی علاقوں میں حالات مختلف ہیں اور یہاں اس کی کاشت کے وسیع امکانات پائے جاتے ہیں۔ غذائی قلت پر قاب و پانے کے لیے کم دورانیہ والی فصل جیسے بک وہیٹ
ک و دیگر خطوں میں متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تاہم یہ جاننا ابھی باقی ہے کہ پاکستان کے میدانی علاقوں میں اس کی کتنی پیداوار ممکن ہے، کون سی اقسام موزوں ہیں اور ان کی کاشت کے بہترین اوقات کون سےاس کی کاشت کے ہیں۔
اسی مقصد کے تحت ملتان کے زرعی ماحولیاتی حالات میں بک وہیٹ کی کاشت کے امکانات پر تحقیق کےلئے حاصل شدہ 148 بیرونی )USDA( گئی اس تحقیق کے پہلے مرحلے میں امریکہ جینوٹائپس ک و 15 نومبر اور 15 دسمبر کو کاشت کیا گیا۔ ان میں سے دو اقسام نے بہترین پیداوار دکھائی اور 67-71 دنوں میں تیارہوئیں۔ یہJapanese B013 اور اقسام ابتدائی طور پر سازگار ثابت ہوئیں جس سے مزید تحقیق کی راہ ہموار ہوئی ۔
تحقیق کے دوسرے مرحلے میں پیداواری صلاحیت کی ان اقسام کو مختلف اوقات پر کاشت کیا گیا تاکہ کاشتکے بہترین وقت کا تعین کیا جا سکے یکم اکتوبر سے یکم فروری تک ہر ایک ماہ کے وقفے سے کاشت کیگئی۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ نومبر اور فروری میں کاشت شدہ ، فصلوں کے سب سے بہتر پیداوار 1.27 ٹن ف ی ہیکٹر ت ک حاصل ہوئی خاص طور پر آئرن کی مقدار بک وہیٹ کے بیجوں میں گندم کے مقابلے میں 1.1 گنااور چاول کے مقابلوں میں 5.7گنا زیادہ پائی گئی ۔
تحقیق کے ای ک اور حصے میں بیجوں کی ذخیرہ اندوزی کے طریقے پر بھی تجربات کیے گئے۔ نتائج سےظاہر ہوا کہ روایتی تھیلوں ) کپڑے اور پولی پروپلین میں ذخیرہ کرنے سے نمی میں اضافہ، اور بیجوں کی بگڑنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس ہرمیٹک بیگز میں ذخیرہ شدہ بیج نمی کے محفوظ معیار میں رہے اور بہتر قوت حیات برقرار رہی۔
نتیجہ یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ بک وہیٹ ملتان اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں کم دورانیہ غذائیت سے بھر پور فصل کے طور پر کامیابی سے کا کاشت کی جا سکتی ہے۔اس سےغذائی قلت پر قابو پانے میں مددملے گی ۔مزید برآں اگر اس کے بیج برمیٹ ک پیکجن گ میں ذخیرہ کیے جائیں ت و یہ اگلی کاشت ت ک اپنی صلاحی تبرقرار رک ھ سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی دبا ؤ کے پیش نظر بک وہیٹ ک و خوراکی نظام میں شامل کرنا محض دانشمندانہ فیصلہ نہیں ای ک بلکہ لازمی قدم ہے۔
Leave a Reply