Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“ملکہ الزبتھ دوم، ایک معصوم شہزادی سے ابدی ملکہ تک”

Articles , Snippets , / Wednesday, November 12th, 2025

rki.news

تحریر: احسن انصاری

دنیا کی تاریخ میں کچھ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کا وجود ایک صدی کے بدلتے رنگوں، تہذیبی ارتقا اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن جاتا ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم انہی میں سے ایک تھیں۔ وہ شخصیت جنہوں نے فرماں روائی کو خدمت، برداشت اور وقار کے ساتھ تعبیر کیا۔

الزبتھ الیگزینڈرہ میری وِنڈزر 21 اپریل 1926ء کو لندن کے علاقے میفئیر میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد پرنس البرٹ، ڈیوک آف یارک (بعد ازاں بادشاہ جارج ششم) اور والدہ لیڈی الزبتھ بوز-لایون (بعد میں کوئن مدر) تھیں۔ اُس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ ننھی سی بچی ایک دن برطانیہ کی عظیم ترین ملکہ بنے گی۔

بچپن میں اُنہیں پیار سے “لِلی بَیٹ” کہا جاتا تھا۔ وہ ایک سادہ، محبت بھری اور گھریلو فضا میں پلی بڑھی۔ تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، جہاں اُنہیں تاریخ، آئینی قانون، فرانسیسی زبان اور موسیقی کی تعلیم دی گئی۔ اُن کے استاد مشہور مؤرخ سی۔ ایچ۔ کے۔ مارٹن تھے، جنہوں نے اُن میں تجزیاتی سوچ اور نظم و ضبط کا احساس پیدا کیا۔

1936ء میں ایک غیر متوقع واقعے نے الزبتھ کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ اُن کے چچا بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے ایک امریکی خاتون والیس سمپسن سے شادی کے لیے تخت چھوڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں الزبتھ کے والد بادشاہ جارج ششم تخت نشین ہوئے، اور دس سالہ الزبتھ تخت کی جانشین بن گئیں۔ اب اُن کی زندگی شاہی پروٹوکول نہیں بلکہ عوامی خدمت کے لیے وقف ہو چکی تھی۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران الزبتھ نے پہلی بار عوامی خدمت کے جذبے کا مظاہرہ کیا۔ محض 14 سال کی عمر میں انہوں نے برطانوی بچوں کے لیے ریڈیو پر خطاب کیا جو جنگ کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور تھے۔ بعد ازاں وہ آکزیلیئری ٹیریٹوریل سروس (ATS) میں شامل ہوئیں، جہاں انہوں نے بطور مکینک اور ڈرائیور تربیت حاصل کی۔یوں وہ شاہی خاندان کی پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے فوجی خدمت انجام دی۔ اُن کی یہ سادگی اور عملی خدمت نے عوام کے دل جیت لیے۔

1947ء میں انہوں نے لیفٹیننٹ فلپ ماؤنٹ بیٹن سے شادی کی، جو یونان اور ڈنمارک کے سابق شہزادے اور بحری افسر تھے۔ یہ شادی برطانیہ میں جنگ کے بعد امید اور استحکام کی علامت بنی۔اُن کے چار بچے ہوئے۔ چارلس، این، اینڈریو، اور ایڈورڈ۔ اُن کا ازدواجی رشتہ 73 برس تک قائم رہا، جو شاہی تاریخ کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔

1952ء میں والد کی وفات کے بعد الزبتھ صرف 25 سال کی عمر میں برطانیہ کی ملکہ بن گئیں۔ 1953ء کی تاجپوشی پہلی تقریب تھی جسے ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھایا گیا، اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے ایک نئی تاریخ بنتے دیکھی۔

اُن کے دورِ حکومت میں دنیا نے زبردست تبدیلیاں دیکھیں — برطانوی نوآبادیات کا خاتمہ، دولتِ مشترکہ (Commonwealth) کا قیام، سرد جنگ، سائنسی ترقی، اور معاشرتی انقلاب۔ ملکہ نے ان تمام ادوار میں وقار، خاموش خدمت اور استقامت کی علامت بن کر راج کیا۔

70 سالہ طویل دورِ حکومت میں ملکہ الزبتھ دوم نے 15 برطانوی وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا — سر ونسٹن چرچل سے لے کر لِز ٹرس تک۔
انہوں نے ہمیشہ سیاسی غیر جانب داری کو برقرار رکھا، جو شاہی نظام کے تسلسل کی ضمانت بنی۔ اپنے 21ویں یومِ پیدائش پر انہوں نے کہا تھا، “میں آپ سب کے سامنے یہ عہد کرتی ہوں کہ میری پوری زندگی، چاہے وہ طویل ہو یا مختصر، آپ کی خدمت کے لیے وقف رہے گی۔” یہ وعدہ انہوں نے آخر دم تک نبھایا۔

8 ستمبر 2022ء کو وہ اسکاٹ لینڈ کے بالمورل محل میں انتقال کر گئیں۔ اُن کی رحلت کے ساتھ ایک تاریخی دور اختتام پذیر ہوا۔ ملکہ کے انتقال کے بعد اُن کے فرزند شہزادہ چارلس اب بادشاہ چارلس سوم کے نام سے تخت نشین ہوئے، اور اپنی والدہ کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ملکہ الزبتھ دوم صرف ایک حکمران نہیں تھیں. وہ استقامت، خدمت، صبر اور انسانیت کی علامت تھیں۔
انہوں نے ایک صدی کے بدلتے منظرناموں میں وقار کے ساتھ قیادت کی، روایات کو قائم رکھا، اور ہر نسل کو یہ سبق دیا کہ قیادت کا اصل جوہر خدمت میں پوشیدہ ہے۔

انہوں نے فرمایا تھا “غم دراصل محبت کی قیمت ہے۔”

اور جب دنیا اُن کے جانے پر روئی، تو اُن کے یہ الفاظ حقیقت بن گئے۔
وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ بطور ایک ایسی ملکہ جو دلوں پر حکومت کر گئی.


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International