Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ملکہ زبیدہ خدمتِ حرم کی عظیم محسنہ اور نہرِ زبیدہ کا دائمی کارنامہ”

Articles , Snippets , / Friday, December 12th, 2025

rki.news

(تحریر احسن انصاری)

اسلامی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی گزری ہیں جنہوں نے اپنی سخاوت، خدمتِ خلق اور دین سے بے پناہ محبت کے ذریعے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ زمانہ انہیں صدیاں گزرنے کے بعد بھی احترام اور عقیدت سے یاد کرتا ہے۔ انہی نابغۂ روزگار ہستیوں میں عباسی دور کی ممتاز، صاحبِ تقویٰ اور عظیم المرتبت خاتون ملکہ زبیدہ بنت جعفر کا نام بے حد نمایاں ہے۔ وہ خلیفہ ہارون الرشید کی زوجہ تھیں، مگر ان کی شناخت صرف رانی یا ملکہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدمتِ حرمین شریفین اور فلاحِ انسانیت کے لازوال جذبے کے طور پر قائم ہے۔ ان کے ہاتھوں وجود میں آنے والی ’’نہرِ زبیدہ‘‘ آج بھی تاریخ کے سنہری اوراق میں ایک منفرد اور شاندار مقام رکھتی ہے۔

تاریخی روایات کے مطابق جب ملکہ زبیدہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائیں تو انہوں نے دیکھا کہ اہلِ مکہ اور دور دراز سے آنے والے لاکھوں حجاج پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ گرم موسم، خشک پہاڑیاں اور آب رسانی کے کمزور ذرائع حجاج کے لیے شدید مشکلات کا باعث تھے۔ لوگ قطاروں میں کھڑے پانی کے ایک ایک گھونٹ کے لیے پریشان تھے۔ یہ مناظر ملکہ کے دل کو بے چین کر گئے۔ ایک ایسی خاتون جن کی زندگی عیش و آرام، شان و شوکت اور آسائشوں میں گزرتی تھی، مگر اس وقت ان کی نگاہوں کے سامنے اللہ کے مہمان مشقت میں مبتلا تھے، لہٰذا ان کی طبیعت میں ہمدردی و خیر خواہی کا جذبہ موجزن ہوا اور انہوں نے فوراً پانی کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے ایک عظیم منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔

ملکہ زبیدہ نے فیصلہ کیا کہ مکہ کے لیے ایک نہر نکلوائی جائے جو دور دراز کے علاقوں سے پانی لائے اور حجاج و مقامی آبادی کو ہمیشہ کے لیے اس مسئلے سے نجات مل جائے۔ یہ ایک مشکل، محنت طلب اور بے حد مہنگا منصوبہ تھا جس کے لیے اس زمانے کے ماہر ترین انجینئرز کو بلایا گیا۔ تحقیق اور جائزے کے بعد یہ طے ہوا کہ مکہ مکرمہ سے تقریباً 35 کلومیٹر شمال مشرق کی جانب وادی حُنین کے مقام جبالِ طاد سے پانی لانے کا منصوبہ بنایا جائے۔ ناہموار زمین، پتھریلے پہاڑ، سخت چٹانیں اور کھڑی وادیوں سے گزرنا اس منصوبے کو نہایت دشوار بنا رہا تھا۔

جب چیف انجینئر نے منصوبے کی تفصیلات بتائیں تو کہا کہ اس نہر کے لیے پہاڑ کاٹنے ہوں گے، چٹانیں توڑنی ہوں گی، اور جگہ جگہ اونچ نیچ کو برابر کرتے ہوئے لمبی نہر کھودنی ہوگی۔ یہ سب کام بہت بڑے اخراجات کا تقاضا کرتا ہے۔

انجینئر کی یہ بات سن کر ملکہ زبیدہ نے جو تاریخی جواب دیا، وہ آج بھی سخاوت و خدمت کے سنہری اصولوں میں شامل ہے۔ انہوں نے فرمایا، “اس کام کو فوراً شروع کر دو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔”

یہ بیان اس بات کی دلیل ہے کہ ملکہ زبیدہ کے نزدیک اللہ کے مہمانوں کی خدمت اور مکہ مکرمہ کی آسانی دنیا کی تمام دولت سے زیادہ اہم تھی۔ ان کا مقصد اللہ کو راضی کرنا اور حاجیوں کے لیے سہولت پیدا کرنا تھا، نہ کہ مال کی بچت یا دنیاوی حساب کتاب۔ اس عظیم نہر پر سترہ لاکھ (17,00,000) دینار خرچ ہوئے، جو اس زمانے میں ناقابلِ تصور بڑی رقم تھی۔ اگر آج کے دور میں اس کی قیمت کا اندازہ لگایا جائے تو یہ کھربوں روپے کے برابر بنتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک عام کارخانہ یا معمولی منصوبہ نہیں تھا، بلکہ اسلامی دنیا کی تاریخ میں فلاحی منصوبوں کا شاہکار تھا۔ یہ نہر صرف پانی کی فراہمی کے لیے نہیں بلکہ ملکہ زبیدہ کی انسان دوستی، ایمان کی پختگی اور اللہ کی خوشنودی کے حصول کی روشن مثال تھی۔

ملکہ زبیدہ کی شخصیت محض فلاحی خدمات تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کا گھرانہ دین اور قرآنِ کریم سے گہرا تعلق رکھتا تھا۔ ان کی خدمت میں ایک سو نوکرانیاں تھیں جو قرآنِ کریم حفظ کیے ہوئے تھیں اور ہر وقت تلاوت میں مشغول رہتی تھیں۔ یوں ان کے محل میں سے قرآن کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح مسلسل آتی رہتی تھی۔ اس سے ملکہ کے دینی رجحان، روحانی وابستگی اور اخلاص کے گہرے احساسات کا اندازہ ہوتا ہے۔

جب نہر مکمل ہوئی تو نگران افسران نے تمام اخراجات کی تفصیلات ملکہ کے حضور پیش کیں۔ اس وقت وہ دریائے دجلہ کے کنارے اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے یہ تحریریں ہاتھ میں لیں، مگر انہیں دیکھنے کی زحمت تک نہ کی۔ بلکہ بغیر پڑھے ہوئے کاغذات کو دریائے دجلہ میں پھینک دیا اور انتہائی عاجزی سے کہا، “اے اللہ! میں نے دنیا میں کوئی حساب نہیں لیا، تو بھی قیامت کے دن مجھ سے حساب نہ لینا۔” یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ اللہ کے حضور خلوص، قربانی، عاجزی اور اخلاص کا بے مثال اظہار ہے۔ انسان کی نیت جب پاک ہو تو اس کے اعمال اللہ کے نزدیک عظمت اختیار کر لیتے ہیں، اور ملکہ زبیدہ کا یہ عمل انہی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی روشن مثال ہے۔

ملکہ زبیدہ کی تعمیر کردہ نہر نے صدیوں تک حجاج کرام کی پیاس بجھائی۔ بعد کے ادوار میں مختلف حکمرانوں نے اس کی مرمت اور تجدید بھی کی، مگر اس کا اصل اجر اور فائدہ ہمیشہ کے لیے ملکہ زبیدہ کے نام رہا۔ یہ نہر اس بات کی علامت ہے کہ ایک نیک نیت انسان کا کیا ہوا کام صدیوں بعد بھی فائدہ دیتا ہے۔ ملکہ زبیدہ کی شخصیت تاریخ اسلام میں سخاوت، خدمتِ خلق، عزم و ہمدردی اور اخلاص کا روشن مینار ہے۔ ’’نہرِ زبیدہ‘‘ صرف ایک پانی کی نہر نہیں بلکہ ایمان، محبتِ انسانیت اور خدمتِ حرمین کا بے مثال نشان ہے۔ ان کا عمل ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جانے والا مال کبھی ضائع نہیں جاتا، بلکہ دنیا و آخرت دونوں میں اجر کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ملکہ زبیدہ بنت جعفر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان کی طرح اخلاص، ہمدردی اور خدمتِ انسانیت کا جذبہ نصیب کرے۔ آمین۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International