خوشی، خوف اور امید کے درمیان شام کی صورتحال پیچیدہ اور غیر مستحکم ہے۔
از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
شامی باشندے اسد کی آمریت کے خاتمے کا جشن منا رہے ہیں۔ لیکن خوشی اور امید کے ساتھ ہی ایک غیریقینی صورتحال شام کے مستقبل اور جرمنی میں شامی مہاجرین کے تحفظ کے بارے میں موجود ہے۔ اب یہاں کسی کو ڈرانے کے بجائے حقائق اور پیچیدہ صورتحال کا معروضی تجزیہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
بشار الاسد کی ظالمانہ حکومت کے تیزی سے خاتمے نے شامی عوام اور باقی دنیا کو حیران کر دیا۔ جب 8 دسمبر 2024 کو یہ خبر بریک ہوئی کہ ڈکٹیٹر اسد ملک سے فرار ہو گیا ہے تو شام، لبنان، ترکی اور کئی یورپی شہروں میں ہزاروں شامی سڑکوں پر جمع ہو گئے اورانہوں نے اسد دور کے خاتمے کی خوشی منائی۔
لیکن جرمنی میں جرمن سیاستدان کیا کر رہے ہیں؟ شامیوں سے خوش ہونے اور ان سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ اب انہیں کس مدد کی ضرورت ہے، وہ فوری طور پر اور کھلے عام شامی مہاجرین کی شام واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ جو کہ غیر حقیقی، خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ تو ہے ہی لیکن سوال پھر بھی یہی بنتا ہے کہ آخر ان شامیوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے؟؟ آئیے ایک تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
6 سال سے شام میں جاری جنگ نے مسلسل نئی ہولناکیوں کو جنم دیا۔ ملک جغرافیائی اور سیاسی طور پرمنقسم ہوا۔ آج تک، اس نے نصف ملین جانیں لی اور نصف آبادی کو پناہ گزینوں میں تبدیل کر دیا ۔ اسد حکومت روس اور عراق کی مالی اور فوجی مدد سے اقتدار سے چمٹی رہی ۔ اسلام پسند لوگ میدان میں اتر رہے ۔ ڈپلومیسی ناکام ہوئی اور پھر ہفتےاور اتوار کی رات شام میں انوکھے اور منفرد واقعات پیش آنا شروع ہوئے ۔ باغیوں نے پہلے اعلان کیا کہ حمص شہر مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہے اور دارالحکومت دمشق پر قبضے کے اشارے بھی اُن سے ملتے رہے۔ تقریباً 3 بجے (سی ای ٹی)، خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ اسلامی ملیشیا حجت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے باغیوں نے آن لائن سروس ٹیلی گرام پر اپنے چینل کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ وہ شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اورسرکاری فوجیوں نے دارالحکومت کے ہوائی اڈے سمیت دیگر مقامات کو چھوڑ دیا ہے۔ بتایا گیا کہ صدارتی گارڈ بھی دارالحکومت سے نکل چکا ہے۔ تھوڑی دیر بعد خبر آئی کہ صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔ شہر کے وسط میں پیش قدمی بظاہر فوج کی طرف سے کسی خاص مزاحمت کے بغیر کئی سمتوں سے ہوئی۔ اگرچہ جھڑپوں کی چھوٹی موٹی خبر بھی ملتی رہی، لیکن واضح طور پر بڑے پیمانے پر مزاحمت کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ HTS کے ساتھ مل کر باغیوں نے بھی شہر پر قبضہ کرنے میں مددکرنا شروع کردیا ۔
کچھ عینی شاہدینوں نے نے بتایا کہ دمشق میں اسلام پسندوں کا استقبال رہائشیوں کی خوشی اور گولیوں سے کیے گئے۔ باغیوں نے ایک بدنام زمانہ جیل سے قیدیوں کو ان کی آمد کے بعد رہاکردیا۔ وزیر اعظم محمد الجلالی نے اسی دن علی الصبح اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں اقتدار کی منتقلی کے لیے اپنی تیاری کا اعلان بھی کردیا اور دوسری طرف شامی فوج نے بھی اسد کی حکومت کےختم ہونے کا اعلان کردیا۔ سب کچھ ایک تیز ترین ڈرامے کے مختلف سین کی طرف شام میں وقوع پذیر ہوتا رہا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ باغی کون ہیں؟
باغی ایک متضاد گروہ ہیں۔ باغی اتحاد کی قیادت اسلامی گروپ حجت تحریر الشام (HTS) کر رہی ہے اور اس کے پہلے القاعدہ سے تعلقات تھے۔ تاہم، بعد میں وہ عوامی طور پر ان سے الگ ہوگئے تھے۔ سرکاری فوجیوں پر حملہ شمال میں باغی گروپوں، شمال مشرق میں کرد ملیشیا اور آئی ایس کے ملیشی گروپ نے اکھٹے کیا۔ اب سب گروپ کی اس جیت پر وہ آپس میں اقتدار کی تقسیم کیسے کریں گے؟ یہ اس وقت کا سب سے اہم سوال ہے ۔ کیا ایک گروپ اکیلے یا کئی گروپ مل کر نئی حکومت بنائیں گے، فی الحال اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتاہے۔
یہ سوال تمام مبصرین کو پریشان کررہا ہے کہ کئی سالوں سے شامی فوج نے اپنے اتحادیوں کے تعاون سے ملک کے باغیوں کے خلاف ایک انتھک اور وحشیانہ جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ گزشتہ ہفتے کے آخر تک ایسا لگتا تھا کہ ملک کا بیشتر حصہ حکومت کے ہاتھ میں ہے لیکن پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ اسد کی حکومت چند ہی دنوں میں ختم ہو گئی اور یہ اس لیے ممکن ہواکیونکہ جہاں بھی باغی نمودار ہوئے صدر اسد کے سپاہی اپنا سامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہو ں۔ اس میں یہ بھی ممکن ہوسکتاہے کہ فوج اور اس کے سپاہی برسوں کی لڑائی کے بعداب تھک چکے ہوں اور مزید کی ہمت جواب دے چکی ہو ۔شاید یہی فوج جو کہ غیر متوقع طور پر وسیع محاذ پر حملہ آور ہو سکتی تھی خاموش تماشائی بنی رہی ۔ یہ ایک لا جواب سوال ہے جو شاید سوال ہی رہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے اسد کے اتحادیوں نے بھی ان کی حوصلہ افزائی میں کردار ادا نہیں کیا۔ اہم دنوں میں ان کی طرف سے بہت کم تعاون وصول ہوا اور یوں اسد کی فوج کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا -اس کے باوجود کہ یہ بات سبھی جانتے تھے کہ اسد کی حکومت صرف روس اور ایران کی زبردست حمایت کی وجہ ہی سے ان تمام سالوں میں اقتدار میں موجود رہنے میں کامیاب ہوئی ہے اور یوں اچانک ان کا مزید لڑنے کی نہ آمادگی پر خاصا اثر پڑا ہوگا۔
ایک وقت تھا کہ بشارالاسد کو جتنا فائدہ روس اور ایران کی طاقت اور خطے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی خواہش سے ہوا، شاید اب اسی طاقت کی مدد سے انکاری اس کی حکومت کے گرنے کا باعث بن گیا ہو۔ روس کی فوج یوکرین کے خلاف جنگ میں مصروف ہوگئی ہے، جہاں وہ تین سال سے ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے – اگرچہ اس نے یوکرین کا بڑا علاقہ حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ کامیابی بہت زیادہ سست رفتاری سے ممکن ہوسکا ہے جبکہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے آغاز میں کچھ اور ہی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ شاید یہ بھی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ یوکرین میں جو پلان تیار کیا گیا تھا اُس پر فوری طور پر کامیابی کا نہ ملنا، نے روسی فوج کو اسد کے لیےاضافی صلاحیتیں فراہم کرنے سے روک دیا ہو۔ دوسری طرف ایران اور حزب اللہ، غزہ کی پٹی میں جنگ اور اسرائیل کے ساتھ نمایاں طور پر شدید تصادم کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کمزور ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے حزب اللہ کی قیادت کو ختم کر دیا ہے اور وہ جنوبی لبنان میں ملیشیا پر بڑے پیمانے پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس لیے یہ شام کی حمایت کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔اور ایران بھی اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنے کے بعد اپنی سرحدوں کو زیادہ سنبھالنے پر توجہ دینے لگ گیا۔ اس لیے ان تمام ڈرامائی بین الاقوامی پیش رفت کا مجموعہ اسد حکومت کے خاتمے کا باعث بن گیا۔
دمشق پر قبضے کے فوراً بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ اسد ہوائی جہاز سے فرار ہو گئےہیں۔ ایک ٹرانسپورٹ طیارہ حال ہی میں لتاکیا کے جنوب مشرق میں روس کے زیر انتظام ہوائی اڈے سے اڑان بھرتے ہوئے اسد کو بھی لے اُڑا۔ ابتدائی طور پر ان کی منزل کا پتہ نہیں تھا۔ کریملن کے ایک نمائندے نے لیکن اب اعلان کیا ہے کہ معزول صدر اور ان کا خاندان ماسکو میں ہیں۔ صدر ولادیمیر پوٹن نے انہیں “انسانی بنیادوں پر” پناہ دی ہے۔
اسد کی حکومت کے خاتمے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ترکی نے خانہ جنگی کے شروع میں اسلام پسند باغیوں کا ساتھ دیتے ہوئے اسد کے خلاف کام کیا۔ گزشتہ ہفتے سے باغیوں کی پیش قدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ترکی کی حمایت حاصل تھی۔ ہمسایہ ملک میں رجب طیب اردگان کے مفادات متنوع ہیں۔ ترک صدر خطے میں اپنے ملک اور اپنے قریبی اسلام پسند گروپوں کا اثر و رسوخ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ کرد گروپوں کو شام میں اثر و رسوخ حاصل کرنے اور ممکنہ طور پر خود مختار علاقوں کی تشکیل سے روکنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی برسوں سے شام میں عسکری طور پر سرگرم رہاہے، اس نے بارہا اپنی فوج کے ساتھ مداخلت کی ہے اور شمال مشرقی شام میں ان علاقوں کو کنٹرول کیا ہے اور باغی گروپ کو اپنے قریب لایا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر، بشار الاسد کے زوال کو مثبت انداز میں دیکھا گیا ہے۔ لیکن ملک اور خطے کے استحکام کے لیے تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز جن کی حکومت خود ڈول رہی ہے ، نے اسد کے زوال کو “اچھی خبر” قرار دیا ہے۔ شولز کا کہنا ہے کہ “اسد نے اپنے ہی لوگوں پر وحشیانہ طریقے سے ظلم کیا اور اپنے ہی بے شمار لوگوں کی جانیں لیں اور بے شمار لوگوں کو شام سے بھاگنے پر مجبور کیا، جن میں سے بہت سے جرمنی بھی آئے ہیں۔ لیکن اب اہم بات یہ ہے کہ شام میں امن و امان جلد بحال ہو جائے۔”
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ” وحشیانہ ریاست بالآخر گر گئی۔ میکرون نے کہا کہ وہ شامی عوام کوان کی ہمت اور صبر کے لیے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ فرانس مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے کام جاری رکھے گا۔”
جبکہ امریکہ کی طرف سے نسبتاً متنوع ردعمل آیا۔ ایک طرف صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ حالیہ ہونے والی پیش رفت کی بغور نگرانی کی جا رہی ہے،۔ دوسری طرف مستقبل کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسد کے اتحادیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روس اور ایران اس وقت ایک کمزور حالت میں ہیں اس لیے ولادیمیر پوٹن کو چاہیے کہ وہ اب یوکرین کے بارے میں بھی بات چیت کریں کیونکہ پوٹن کامثبت عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
Leave a Reply