rki.news
ڈاکٹر رحمت عزیزخان چترالی
ممبئی ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے نے ایک ایسے عدالتی باب کو ختم کیا ہے جس کا آغاز 11 جولائی 2006ء کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں سے ہوا تھا۔ ان دھماکوں میں 189 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ فوری طور پر بھارتی تفتیشی اداروں نے ان دھماکوں کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا، اور 13 مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی، قتل، سازش اور دیگر سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ ان میں سے ایک نوجوان کمال انصاری بھی تھا جوکہ دوران قید وفات پا گیا۔ تاہم 19 سال بعد 2024 میں ممبئی ہائیکورٹ نے ان تمام الزامات کو ناکافی ثبوت، تضادات اور غیر معتبر اعترافی بیانات کی بنیاد پر مسترد کرتے ہوئے باقی 12 میں سے 11 قیدیوں کو بری کر دیا۔ یہ فیصلہ ایک تاریخی عدالتی مثال بھی ہے اور بھارتی انصاف کے نظام پر کئی سوالیہ نشان بھی۔
بھارت میں 2000ء کی دہائی کے اوائل سے دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے، جن میں زیادہ تر کا الزام مسلم نوجوانوں پر لگایا گیا۔ سنجیدہ مشاہدین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا نشاندہی کی کہ بھارتی تحقیقاتی ایجنسیاں مخصوص مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد کو بغیر ٹھوس شواہد کے گرفتار کرتی رہی ہیں۔ 2006ء کے ممبئی دھماکوں کے بعد بھی تفتیش کے دوران جو سلوک اپنایا گیا، وہ زیادہ تر “ملزم پہلے، ثبوت بعد میں” کی روش پر مبنی تھا۔
اسی تناظر میں اس مقدمے میں بھی شواہد کی نوعیت مشکوک رہی۔ عدالت نے اس امر پر زور دیا کہ پولیس کی طرف سے پیش کیے گئے اعترافی بیانات نہ صرف قانونی تقاضے پورے نہیں کرتے بلکہ ان میں منطقی تسلسل بھی موجود نہیں۔ تفتیشی ایجنسیوں کی بدنیتی پر مبنی کارکردگی کی گواہی ہائی کورٹ کے ریمارکس سے بھی ملی، جس میں عدالت نے کہا کہ “یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمان نے یہ جرم کیا۔”
یہ عدالتی فیصلہ اس بات کا آئینہ دار ہے کہ ملزمان کو ان کے جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی سزائیں سنانا اور لمبے عرصے تک قید میں رکھنا بھارتی عدالتی نظام کی سنگین خامی کی علامت ہے۔
یہ فیصلہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بھارت میں مسلم نوجوانوں کو “قربانی کا بکرا” بنا کر تفتیشی کامیابی ظاہر کی جاتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کا بیان اس تناظر میں نہایت اہم ہے کہ “نہ صرف مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ ایک پوری قوم کو بدنام کیا جاتا ہے۔”
اگر سشیل کمار شندے جیسے سابق وزیر داخلہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) اور بی جے پی شدت پسندی کو فروغ دے کر مسلمانوں کو پھنسانے کی کوشش کرتی ہے، تو یہ الزام محض سیاسی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی بدنیتی کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔
19 سالہ قید، اذیت، سماجی بائیکاٹ اور ایک قیدی کی موت اس عدالتی ناکامی کی سنگین قیمتیں ہیں جو کبھی واپس نہیں آ سکتیں۔
بھارتی حکومت اور عدلیہ کو چاہیے کہ تفتیشی اداروں کی کارکردگی پر غیرجانبدارانہ آڈٹ کروائیں، تاکہ جھوٹے مقدمات کے اسباب کا تعین ہو سکے۔
بری ہونے والے افراد کو باعزت معاوضہ، روزگار اور سماجی بحالی فراہم کی جائے تاکہ ان کی تباہ شدہ زندگیوں کا کچھ ازالہ ممکن ہو۔
عدالتی نظام کو تیز تر، شفاف، اور سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ محض شک یا تعصب کی بنیاد پر کسی کو سزا نہ دی جا سکے۔
بھارتی آئین کے تحت اقلیتوں کو مذہبی، سماجی، اور عدالتی تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک پر قابو پانے کے لیے ایک جامع پالیسی درکار ہے۔
اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ داخلی سطح پر جب ریاست ناکام ہو جائے، تو بین الاقوامی آوازیں ہی مظلوموں کی آخری امید بنتی ہیں۔
ممبئی ہائیکورٹ کا فیصلہ بظاہر انصاف کی جیت معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ جیت ان لوگوں کے لیے ادھوری ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے 19 قیمتی سال قید میں گزار دیے۔ یہ فیصلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انصاف صرف فیصلے کی صورت میں نہیں بلکہ بروقت اور غیرجانب دار ہونا بھی ضروری ہے۔ جب تک بھارت میں تفتیشی ادارے مذہب کی بنیاد پر کام کرتے رہیں گے، تب تک انصاف کے تقاضے ادھورے ہی رہیں گے۔
یہ ایک عدالتی فتوٰی ہے کہ سچ کو کتنی بھی دیر ہو، وہ ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ مگر ضروری یہ ہے کہ سچ کو چھپانے والوں کا بھی احتساب ہو۔ تبھی انصاف مکمل ہوگا۔
Leave a Reply