rki.news
ترقی کے راستے کی رکاوٹ
کالم نگار:
پارس کیانی
ساہیوال، پاکستان
انسان کا ذہن، فطرتاً، ایک مقناطیسی نظام کی طرح ہے۔ یہ جس سمت میں سوچتا ہے، توانائی بھی اُسی طرف جذب کرتا ہے۔ مثبت سوچ ذہن کے اندر نئے امکانات کے دروازے کھولتی ہے، جبکہ منفیّت ہر راستے پر اندھیرا بچھا دیتی ہے۔ یہی منفیّت ہے جو ترقی کے سفر کو سست کر دیتی ہے، اور اکثر اوقات انسان کو اپنی ہی ناکامی کا ذمہ دار بنا دیتی ہے۔
منفیّت دراصل ایک ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان ہر بات کا تاریک پہلو دیکھتا ہے۔ کسی کی کامیابی پر حسد، کسی کی خوشی پر بدگمانی، کسی کی رائے پر اعتراض، یہ سب منفیّت کی شاخیں ہیں۔ ڈاکٹر جوزف مرے کے مطابق، “Negative thinking releases stress hormones that block creative and decision-making parts of the brain.” یعنی منفی سوچ دماغ میں ایسے کیمیائی مادّے پیدا کرتی ہے جو فیصلہ سازی اور تخلیقی عمل کو مفلوج کر دیتے ہیں۔
سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک حصہ “Amygdala” کہلاتا ہے، جو خوف اور غصے کے جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب کوئی شخص منفی انداز میں سوچتا ہے تو Amygdala مسلسل متحرک رہتا ہے، جس سے دماغ پر دباؤ بڑھتا ہے، اور انسان بے وجہ بددل، مایوس اور بدگمان ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مثبت سوچ “Prefrontal Cortex” کو متحرک کرتی ہے، جو منصوبہ بندی، امید اور تخلیق کی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے۔ یوں مثبت سوچ دماغ میں روشنی پھیلاتی ہے اور انسان کے عمل میں توانائی پیدا کرتی ہے۔
لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں منفیّت کو اکثر عقل مندی سمجھ لیا جاتا ہے۔ جو شخص ہر بات پر شک کرے، ہر کام میں نقص نکالے، اسے “حقیقت پسند” کہا جاتا ہے، حالانکہ وہ دراصل زندگی کی خوبصورتی سے کٹ چکا ہوتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
“عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے “
منفیّت خودی کی دشمن ہے۔ یہ انسان کے اندر سے اعتماد، جرات اور جوش چھین لیتی ہے۔ ایک منفی شخص اپنے لیے خود زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے، کیونکہ وہ ہر کامیابی سے پہلے ناکامی کا تصور کر لیتا ہے۔ وہ دوسروں پر الزام دھر کر خود کو بری سمجھتا ہے، مگر انجام میں تنہائی، مایوسی اور حسرت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
معاشرتی سطح پر دیکھیں تو منفیّت قوموں کو بھی پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کی کامیابی میں رکاوٹ بننے لگیں، جب ہر نئی سوچ کا مذاق اڑایا جائے، جب ہر اچھے ارادے کو شک کی نظر سے دیکھا جائے تو ترقی رک جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے اپنی فکری توانائی کو حسد، بدگمانی اور نفرت میں ضائع کیا، وہ دنیا کے نقشے پر پیچھے رہ گئیں۔
منفیّت ایک خاموش زہر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کسی دوسرے کے بارے میں برا سوچ رہے ہیں، لیکن دراصل ہم اپنے اندر زہر گھول رہے ہوتے ہیں۔ روحانی سطح پر بھی یہی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ انسان جو توانائی دوسروں کی طرف بھیجتا ہے، وہ کسی نہ کسی صورت میں واپس خود اس کی طرف پلٹتی ہے۔ اس لیے جب ہم نفرت، حسد یا بدگمانی پھیلاتے ہیں تو دراصل اپنی ہی فضا کو آلودہ کر رہے ہوتے ہیں۔
منفیّت کے خلاف سب سے مضبوط ہتھیار شکرگزاری اور خوش فہمی ہے۔ جو شخص شکر کرنا سیکھ لیتا ہے، وہ کبھی اندھیرے میں نہیں رہتا۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
“لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ”
“اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔”
یعنی مثبت رویّہ نہ صرف روحانی ترقی کا ذریعہ ہے بلکہ عملی کامیابی کا بھی راز ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ منفیّت ایک ایسا بوجھ ہے جسے کندھوں پر اٹھا کر چلنے والا کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو دل میں بدگمانی، حسد یا شک رکھتا ہے، وہ اپنے لیے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم اپنے ذہن کو صاف رکھیں، اپنی سوچ کو روشن بنائیں، اور دوسروں کی کامیابی میں خوشی محسوس کریں تو یقیناً ترقی کا سفر آسان ہو جائے گا۔
زندگی کے سفر میں سب سے بڑی جیت یہی ہے کہ ہم منفیّت کو ہرا دیں, کیونکہ منفیّت کو شکست دینا، دراصل خود کو جیتنا ہے۔
Leave a Reply