rki.news
کالم نگار۔۔۔۔۔نواز ساجد نواز
موجودہ دور میں خلوص جو کبھی انسانی رشتوں کی بنیاد سمجھا جاتا تھا اب رفتہ رفتہ ایک نایاب اور کم یاب صفت بن چکا ہے۔ سچائی، دیانت اور مخلصی وہ اوصاف تھے جن پر معاشرتی توازن اور باہمی اعتماد قائم تھا، مگر آج مفاد پرستی، خود غرضی اور وقتی فائدے نے ان اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ انسان اب رشتوں میں احساس کے بجائے فائدے کو تولنے لگا ہے۔ مادہ پرستی نے دلوں کو سخت اور رویوں کو مصنوعی بنا دیا ہے۔ خلوص کے بجائے چالاکی اور چاپلوسی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔ لوگ کسی کام یا تعلق کی بنیاد صرف ذاتی مفاد پر رکھتے ہیں، نتیجتاً معاشرتی سطح پر اعتبار اور اعتماد کی عمارت زمین بوس ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وہ زوال ہے جس نے انسان کو انسان سے بیگانہ کر دیا ہے۔
اخلاص کی کمی کا سب سے بڑا نقصان انسان کے باطنی سکون کو ہوا ہے۔ پہلے انسان کم وسائل کے باوجود مطمئن تھے کیونکہ ان کے درمیان دل کی سچائی اور نیت کی صفائی موجود تھی۔ آج جب ہر تعلق کسی مقصد کے لیے قائم ہوتا ہے، تو رشتوں کی گرمی اور احساسِ قربت مفقود ہو جاتی ہے۔ دوست، عزیز یا شریکِ حیات ہر کوئی اپنے فائدے کے مطابق دوسرے کی قربت کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس رویے نے تعلقات کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ جہاں کبھی محبتوں کی گہرائی تھی، وہاں اب دکھاوے کی چمک ہے۔ انسان جتنا مادی ترقی کر رہا ہے، اتنا ہی روحانی طور پر خالی ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ خلوص کے بغیر تعلقات صرف ظاہری لبادہ رہ جاتے ہیں۔
موجودہ سماج میں اخلاص کی کمی صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ادارے، تنظیمیں، اور یہاں تک کہ مذہبی و سیاسی قیادت بھی ذاتی مفاد اور اقتدار کی ہوس میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ انسانیت کی خدمت، قوم کی بہتری، یا اجتماعی بھلائی کے نعروں کے پیچھے اکثر ذاتی مفاد چھپا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ اخلاقی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سچ بولنے والے کم اور چاپلوس زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ مخلص رہنما، استاد، یا دوست اب چراغِ رخِ زیبا کی مانند ہیں۔ نایاب اور قیمتی۔ یہ زوال محض اخلاقی نہیں بلکہ فکری اور روحانی بحران کی علامت بھی ہے۔
خلوص کی نایابی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جدید دور نے انسان کو خود مرکز بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا، مقابلے کی دوڑ، اور شہرت کی ہوس نے ہر شخص کو اپنی تشہیر میں مصروف کر دیا ہے۔ لوگ اب دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے زندہ ہیں، نہ کہ دل سے جینے کے لیے۔ سچی بات کہنا اب مصلحت کے خلاف سمجھا جاتا ہے، اور مخلص ہونا کمزوری قرار دیا جاتا ہے۔ معاشرتی معیار بدل چکے ہیں؛ خلوص کے بجائے ظاہری چمک کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال نے انسان کو تنہا اور عدمِ تحفظ کا شکار بنا دیا ہے کیونکہ کسی پر اعتماد کرنا خطرے سے خالی نہیں رہا۔
مخلص انسان آج کے معاشرے میں کسی خزانے سے کم نہیں۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر دوسروں کے لیے بھلائی سوچتے ہیں۔ وہ وعدے نبھاتے ہیں، دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے ہیں، اور رشتوں میں سچائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایسے لوگ اکثر اس دنیا میں ناآسودگی کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ معاشرہ ان کی سادگی کو کمزوری سمجھتا ہے۔ پھر بھی، انہی لوگوں کی بدولت دنیا میں انسانیت کا چراغ روشن ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ خلوص ابھی مرا نہیں، بس دب گیا ہے۔
اخلاص کے زوال کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اقدار کی طرف لوٹیں۔ بچوں میں دیانت، سچائی اور احساس کی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وقتی فائدہ دیرپا سکون نہیں دیتا، اور مصنوعی تعلقات آخرکار ٹوٹ جاتے ہیں۔ سماج میں مخلص کرداروں کی قدر کرنی چاہیے تاکہ لوگ ان کی راہ پر چلنے کی تحریک پائیں۔ مذہبی، تعلیمی، اور ثقافتی اداروں کو بھی خلوص کی تربیت کے مراکز بننا ہوگا۔ جب تک نیت کی پاکیزگی کو معاشرتی قدر کا درجہ نہیں دیا جاتا، ہم حقیقی سکون حاصل نہیں کر سکتے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں مخلص ہونا واقعی نایاب ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہ خلوص ہی ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے، اس کے کردار میں روشنی بھرتا ہے اور رشتوں کو معنویت دیتا ہے۔ خلوص کے بغیر علم، دولت، یا شہرت سب بے معنی ہیں۔ اگر ہر شخص اپنی ذات میں دیانت اور محبت کا چراغ جلائے، تو معاشرہ دوبارہ اعتماد، محبت، اور احساس کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہ وہ خواب ہے جو تبھی ممکن ہے جب ہم خود سے مخلص ہونا سیکھ لیں، کیونکہ جو خود سے مخلص ہو، وہی دوسروں کے لیے سچا بن سکتا ہے۔
                                     
                                    
                                        
			
	
	
	                                    
                                    
Leave a Reply