تحریر: اشعر عالم عماد
ایک بادشاہ کو اپنی قوم کے حالات جان کر سخت تشویش ہونے لگی تو اس نے اپنی سلطنت کے تمام امراء اور وزراء کو رات کھانے پر دعوت دی تاکہ وہ جان جاسکے کہ یہ لوگ عوام الناس کے لیئے کیا اقدامات کر رہے ہیں ۔اس دن تمام تمام امراء اور وزراء مقررہ وقت پر محل پہنچ گئے بادشاہ نے فرداً فرداً سب سے ملاقات کی اور حالاتِ حاضرہ سے آگاہی چاہی۔ شاندار دعوت کا اختتام پرتعیش کھانوں کے بعد محفلِ شباب و کباب پر ہوا تمام عمائدینِ سلطنت اپنے اپنے طور بادشاہ کو مطمئن کرکے رخصت ہونے لگے۔۔
مگر بادشاہ ان سے مطمئن نہ ہوا کیونکہ وہ جب بھیس بدل کر شہر کی گشت پر نکلتا اور لوگوں کے حالات دیکھ کر ان سے گفتگو کرتا تو اسے بے حد افسوس ہوتا کیونکہ عمائدین کی جانب سے بتائے جانے والے حالات عوام کی حالاتِ زندگی سے یکسر مختلف نظر آتے۔۔ ایک دن اس نے اپنے اہلِ خانہ میں اپنی اس تشویش کا ذکر کیا تو اس کی والدہ نے مشورہ دیا کہ یہ وزراء اور امراء تو چاپلوسی اور جھوٹ سے کام لیتے ہیں اصل حالات یہاں کے کسی مورخ سے(اس دور کےصحافی کہہ سکتے ہیں)پوچھے جائیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ مورخ درباری نا ہو بلکہ مفلس اور غریب ہو۔ بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی اس نے سوچا اس شخص کو ڈھونڈنے کا کام کسی ملازم کو دیا تو وہ اپنا من پسند اور چاپلوس بندہ لے آئے گا جس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے ایک دن وہ خود ہی بھیس بدل کر ایسے شخص کی تلاش میں نکلا اور لوگوں سے معلوم کرتے کرتے ایک ایسے شخص کے پاس پہنچا جو ایک ٹوٹے پھوٹے سے مکان میں رہتا تھا بادشاہ نے اسے ملاقات کے لیئے باہر بلایا تو وہ شخص ٹوٹی ہوئی جوتیاں اور پرانے کپڑوں پہنے ہوئے باہر آیا۔ بادشاہ نے خود کو بادشاہ کا ملازم بتایا اور اسے اپنے آنے کا مدعا بتاتے ہوئے کہا کہ وہ عوام اور امورِ سلطنت کے اصل حالات کا جائزہ پوری دیانت و سچائی کے ساتھ لکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش ہو۔۔ غریب مورخ نے پیشکش قبول کرلی مگر ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا بادشاہ سلامت پوری سچائی برداشت کرسکیں گے ایسا نا ہو سچ لکھنے پر وہ میرا سر ہی قلم کر ڈالیں۔۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت نے اس کام کو سچائی سے کرنے کے لیئے پیشگی جان کی امان دے دی ہے اور خطیر انعام دینے کا وعدہ کیا ہے۔۔۔
دو دن ہی گزرے تھے وہ غریب مورخ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور اپنے تھیلے سے کچھ کاغذات نکال کر بادشاہ کے حوالے کردیئے بادشاہ نے اسے روک کر باقی عمائدین سے تخلیہ کا کہا۔۔ دربار خالی ہوگیا تو بادشاہ مورخ کے دیئے ہوئے کاغذات کا مطالعہ کرنے لگا اسے معلوم ہوا کہ اعلیٰ عدلیہ سے لیکر نیچے ریڑھی والے تک سب ہی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ رشوت خوری اقراء پروری اور اثر و رسوخ کے. بے جا استعمال کی وجہ سے سلطنت کا سب سے اہم ترین ادارے یعنی عدلیہ کا تو بہت ہی برا حال تھا جہاں سے کئی سالوں سے عام رعایا کو انصاف میسر نا ہوسکا تھا یہی حال تعلیمی اداروں کا تھا جہاں سے قوم کے نئے معمار پیدا ہونے تھے۔فوج کا حال اس سے بھی برُا تھا بلکہ اعلیٰ افسران اپنی ذاتی فوائد کے لیئے دربارِ اعلیٰ کی سیاست میں ملوث پائے گئے کیونکہ اس وقت دربار میں موجود کابینہ کی اکثریث یا تو فوج کے حمایت یافتہ وزراء کی تھی یا امراء کے نمائندوں کی۔۔۔ جبکہ ماضی میں جو لوگ عوام کے حقیقی نمائندے بن کر ایوان میں پہنچے انھیں تو انھیں غدار بناکر یا تو مار دیا گیا یا ملک بدر کردیا گیا۔
جو یہاں رہ گئے انھیں سخت ایزا دی گئی پھر وہ یا تو ان کے ہمنوا ہوگئے یا پھر مار دیئے گئے تھے۔۔
مورخ نے اس دستاویزات ایسے ٹھوس ثبوت کے ساتھ پیش کئے تھے کے جس سے انکار ممکن نا تھا یہ سب پڑھ کر بادشاہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے مورخ کو وعدے کے مطابق انعام و اکرام سے نوازا اور دربار سے عزت کے ساتھ رخصت کردیا۔
اب بادشاہ کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کے اس کے مرنے کے بعد اگر اُس کی سلطنت کی اصل تاریخ سامنے آگئی تو دنیا میں وہ ایک ناکام بادشاہ کے طور پر جانا جائے گا۔۔
بادشاہ نے اپنی زندگی میں سلطنت کی تاریخ کو بدلنے کا اصولی فیصلہ کیا امورِ سلطنت میں ہنگامی تبدلیاں اور معزولیاں کرنے لگا تو اس کی مذاحمت میں سب پہلے اس کے فوج کے افسرانِ بالا کھڑے نظر آئے پھر ان کے حمایتی وزراء اور ان کی حمایت میں عدالتِ عالیہ کے سب سے بڑے پر عہد پر “فائز”۔۔قاضی صاحب۔۔
بادشاہ بہت پریشان ہوا اور اسی غم میں قریب المرگ کو پہنچ گیا تو اس نے اُسی مورخ کو بلوایا تاکہ اسے لکھوا سکے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کو اعلی تعلیم عدل و انصاف اور بنیادی سہولیات کیوں فراہم نا کرسکا۔۔کچھ ہی دیر بعد ایک پُروقار لباس میں ملبوس ایک بندہ ہاتھ میں شاہی قلم اور چند کاغذات کیساتھ بادشاہ کے پاس حاضر ہوا۔۔۔بادشاہ نے اسے بمشکل پہچانا اور اس سے شاہی لباس کی بابت پوچھا۔۔ مورخ چونکہ بادشاہ کے حالات سے پہلے ہی واقف تھا اس نے بادشاہ کو سچ بتانے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ “حضور آپ کو تمام ثبوت دینے کا علم جب فوج کے سالارِ اعظم صاحب کو ہوا تو مجھے اغواء کرکے ایک نامعلوم مقام پر قید کردیا گیا۔ جہاں کچھ عرصہ تک نامعلوم رہ کر میری معافی تلافی ہوئی اور میں ریاست کی اصل تاریخ لکھنے پر آمادہ ہوگیا اور جب میں نے اپنی تاریخی غلطی درست کرلی تو مجھے دربارِ اعلیٰ کا شاہی مورخ مقرر کردیا گیا۔۔ یہ شاہی قلم و لباسِ فاخرہ اسی لیئے عطا ہوئے ہیں۔۔۔۔ مورخ نے فخر سے کہا
اصل تاریخ ۔۔۔؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
جی ہاں میں آپ کو مملکت کی اصل تاریخ پڑھ کے سناتا ہوں۔۔۔ مورخ نے کہا ابھی بادشاہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کے مورخ رٹو طوطے کی طرح تاریخ پڑھنے لگا۔۔۔
ہمارے بادشاہ سلامت انتہا درجہ کے انصاف پسند اور خدا ترست انسان تھے یہی وجہ تھی کہ سلطنت میں ہر طرف انصاف کا بول بالا تھا ساتھ ہی “عوام فوج سے بہت کرتی تھی۔۔۔ ہر طرف امن و امان تھا اور لوگ فوج سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔۔۔ عدلیہ آزاد تھی اور اپنے فیصلے بغیر اثر و رسوخ کے کیا کرتی تھی۔۔ “عوام فوج کی دیوانی تھی” اور اپنے سپہ سالار کو اپنا ہیرو سمجھتی تھی۔۔۔ جن کی وجہ سے سلطنت میں اتنا امن وامان تھا کہ جنگل کا شیر بھی اپنا شکار ان سے پوچھ کے کیا کرتا تھا۔۔۔۔
بادشاہ نے ایک نظر مورخ پر ڈالی اور اطمینان سے جاں بحق تسلیم ہوگیا۔۔۔۔
مورخ نے تمام کاغذات بطور اعمال نامہ بادشاہ کے سیدھے ہاتھ پر رکھ کر اس کی مٹھی بند کر دی اور کمرے سے نکل گیا۔۔۔
(ممکن ہے پاکستان کی تاریخ ایسی ہی لکھی گئی ہے مگر آپ مثبت سوچیں اور اداروں سے محبت کریں)
Leave a Reply