تبصرہ : حافظہ عالیہ سعید ( شعبہ اردو ‘ وویمن یونیورسٹی ملتان)
فیودر دستو ئیفسکی روس کے مشہور مترجم،ناول نگار،مضمون نگار تھے۔ اکتوبر 1921 میں ماسکو نامی شہر میں ایک پست معاشی صورتحال سے دو چار خاندان مین ان کی پیدائش ہوئی۔ فیودر کی تحاریر سے واقفیت سے قبل ان کی ذاتی زندگی سے کما حقہ شناسائی ضروری ہے۔ آپ کی والدہ کی خوش مزاجی بھی کسی طور آپ کے والد کے تنگ ذہنی فلسفے کو کم نہ کرسکی جو ساری رات اس فکر میں کروٹیں بدلتے رہتے کہ صبح کھانا کہاں سے ملے گا غرض ایسا پست معاشی نظام جس نے ایک شاہکار تخلیق کار پیدا کیا۔ روس کے بڑے ادبی نام فیودر دستو ئیفسکی سے متاثر نظر آتے ہیں
اسے پڑھنے کا اتفاق ہوا تو سمجھ میں آیا کہ کہا جاتا ہے شاعر و ادیب اپنے معاشرے کا ایسا سریع العمل انسان ہوتا ہے جس میں انتہائی قوت اظہار موجود ہو۔ فیودر کے زندگی اور ان کی تحاریر میں ایک جذباتی، نفسیاتی وابستگی موجود ہے۔
ناول کی کہانی بنیادی طور پر دو محبت کرنے والے کرداروں ماکار الیکسی وچ اور اس کی ہیروئن وار وار الیکسی ونا کے گرد گردش کرتی ہے۔ پلاٹ کی دلچسب بات ہے کہ “بے چارے لوگ” ایک طرف سے ناول بھی ہے اور خطوط کا مجموعہ بھی،یعنی اس کا تعلق بیک وقت افسانوی اور غیر افسانوی ادب سے ہے۔
فیودر اپنی عملی زندگی میں نشہ کرتے تھے اور ان کے عموماً ہر ناول کا ہیرو نشہ کرتا ہے مگر یہاں ہمیں اس کی وجہ طے کرنا ہوگی کہ کیوں ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ معاملہ اس ذہنی سکون کا ہے جو انھیں میسر نہیں۔ جب سارے دن کا تھکا ہارا آدمی آرام کو لیٹے تو اسے اگلی صبح کی فکر کھائے جاتی ہے کہ کل کھانا کہاں سے ملے گا۔ جب وہ اپنے بچوں کو اچھا گھر، خوشحال زندگی نہ دے سکیں تو پھر وہ اس زندگی سے فرار پانے کے لیے ایسی ویسی راہیں نکال لیتے ہیں۔یہی زندگی فیودر کے نصیب میں تھی اور یہی اس کے باپ کے مقدر میں۔
دوسرا محبت کا بیان بڑا دلچسپ ہے کہ اس دنیا میں کچھ ایسے لوگ پیدا کیے جاتے ہیں جو بغیر بدل کے محبت کرتے رشتے بناتے اور نبھاتے ہیں جیسا کہ ناول کا ہیرو ماکار الیکسی وچ جو ایک غریب کلرک ہے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں نوکری پر جانے والا غریب کلرک جس کی جوتی گھس گھس کر انتہائی ابتر حالت میں ہے مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنی ضروریات پوری کرسکے۔ لیکن اپنی محبوبہ کے لیے عمدہ ململ کی کی فراک بنواتا ہے ہر خط کے ساتھ اسے پھل مٹھایاں بھیجتا ہے۔جو مسٹر فیڈرک سے شادی کی یہ وجہ بتاتی ہے کہ کب تک آپ کے سہارے پڑی رہوں گی۔ اپنا سب کچھ لٹا کر مالدار ہونے والے ماکار الیکسی وچ کوابھی بھی کوئی ملال نہیں۔ہیرو کی یہ بے اعتنائی قاری کو فرط حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔
ناول کا تعلق بنیادی طور پر ترقی پسند موضوعات سے ہے کہ صاحب رسوخ کو یہ حق کون دیتا ہے وہ اپنے جیسے انسانوں کو بے کار سمجھیں۔ جیسے دستو ئیفسکی جب مالی حالات سے تنگ آکر اپنے ہی جاننے والوں سے امداد کا مطالبہ کرتا ہے تو اسے حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ تفریق پیدا کرنے والا کون ہے کیوں ایک جیسے دو انسان الگ الگ زندگیاں گزاریں۔۔کیوں ایک گوشت کھا کھا کر تنگ آ جائے اور دوسرا گھاس پات پر بھی شکر کرتا پھرے۔
مگر ان سب کے باوجود ناول ایک سبق دیتا ہے کہ ہمیں لوگوں کے لیے آسان بننا چاہئے دستو ئیفسکی خود انہتائی معاشی تنگی سے دوچار ہے لیکن جب اس کا دوست اسے اپنی فاقہ کشی کا ذکر کرتا ہے تو وہ بے جھجک اپنی بچے کچے چند سکے اس کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے اس کہانی میں دلچسب موڑ تب آتا ہے جب دستو ئیفسکی کا مالک اس کی حالت زار پر رحم کھا کر اسکی امداد کرتا ہے اور اپنی ہمدردی کا یقین دلاتا ہے۔ یعنی ہم دوسروں کے لیے آسان بنیں گے تو نیلی چھت والا دست شفقت ہم پر رکھے گا۔
المختصر دستو ئیفسکی نے اپنی عملی زندگی کو جس طرح ایک فن میں پرویا ہے داد تحسین کے لائق ہیں۔ناول کی آسان زبان دلکش انداز بیان اور اسلوب مترجم “ظ انصاری “کی ادبی و علمی شناسائی کی دلالت کرتی ہے۔
Leave a Reply