rki.news
نظریاتی اصلاح (سردار آفتاب اقبال )
وقت کی جدت سے کچھ تبدیلیاں لازم ہے ورنہ انسان کیا ہر چیز اپنا مقام کھو دیتی ہے تبلیغی جماعت کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اور منظم جماعت میں ہوتا کچھ فروعی اختلافات کی بنیاد پر ان کو بلکل نظر انداز کرنا بھی درست نہ ہو گا تااہم آجکل سوشل میڈیا پر جو ٹاپک قابل غور ہے وہ یہ کہ مولانا طارق جمیل صاحب کو مانسہرہ اجتماع میں بیان نہیں دیا گیا اور کچھ لوگ اس میں کمپین چلا رہے ہے کہ وہ عمران خان کے حمایتی ہے اس لیے ان کو بیان نہ مل سکا ایک بات زہن نشین کرلینی چاہئے کہ مولانا طارق جمیل صاحب اور تبلیغ دو الگ جماعتیں نہیں ہے بلکہ مولانا طارق جمیل صاحب تبلیغ سے ہیں اور اللہ نے ان سے بڑا کام لیا تبلیغ کا ۔ اب بات بیان نہ ملنے نہ ملنے کی جب آئے تو تبلیغ کے جو اصول ہیں ان پر علماء اور عوام الناس کو سختی سے پابندی کرنی ہوتی ہے جبکہ مولانا کی جو سوچ ہے وہ کہ دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کچھ تبدیلیاں بھی لانی ہو گی ایک مدراس کا طالبہ علم دنیاوی تعلیم حاصل کرے گا تو وہ دنیاوی میدان میں آسکے گا اگر وہ صرف مدرسے تک محدود رہا یا تبلیغ تک تو وہ اتنا بڑا خیر کا کام نہیں کرسکے گا جو کرنا چاہئے ایک ادارے کا ڈی جی اگر اللہ والا ہو گا تو اس کے پاس ھزار ملازم بھی رشوت ، حرام ، چوری ، بدیانتی سے ڈرے گے اب ہمارے مدارس میں یہ بات کی جائے تو وہ آگے سے کہتے ہیں ہمیں دنیا کی ضرورت نہیں اگر یہ کام ضروری نہ ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور میں گورنز نظام فوج کا نظام و دیگر اہم چیزیں نہ شامل کرتے میرا چھوٹا بھائی بھی مدرسے کا طالب علم ہے اور نامور تبلیغی عالم دین سے میری لمبی بحث ہوئی مگر انھوں نے اس کو دنیاوی تعلیم کے لیے وقت دینے سے انکار کیا اور پھر مجبورا ہمیں مکتب تبدیل کرنا پڑا ۔ مولانا طارق جمیل صاحب ہر اجتماع میں جاتے ہیں جب وہ موجود ہو بیان ملے نہ ملے وہ جاتے ضرور ہیں البتہ کچھ شوری والوں کو بھی اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی ہو گی دور جدید سوشل میڈیا کا دور ہے اور اب جو لوگ ذاتی مولانا طارق جمیل صاحب کو سنتے آئے ہیں وہ متنفر ہونگے تبلیغ کے نظام سے دوسرا وقت کے مطابق تبدیلی لازم ہے اور اتنے بڑے اجتماع اتنے زیادہ لوگ اور اس میں مظلوموں کا زکر نہ کرسکے عوام کو یہ نہ بتلا سکے کہ اسرائیل کی یہ مصنوعات ہیں ان کا بائکاٹ کیا جائے تو پھر بات دل میں عشق نبیؐ نہیں تو مکے آنے جانے کا کیا فائدہ میرے سامنے عورت کی عزت لٹی جارہی ہے ان کے بچوں کو قتل کیا جارہا ہے اور میں کہتا ہوں تزکیہ نفس کیا جائے جبکہ دین اسلام تو ہمیں یہ سیکھاتا ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکوں سب سے کم درجہ دل میں برا محسوس مگر ہمارے پاس یہ ہتھیار تو موجود ہے کہ ہم اس بائکاٹ کا حصہ بنے لوگوں کو دعوت یہ بھی دے کہ اسرائیل مسلمانوں کا دشمن ہے اس کی پراڈیکٹ مت لے ۔ باقی اللہ پاک مولانا سے بہت خیر کا کام لیا مزید بھی لے گے اللہ تعالیٰ مولانا طارق جمیل صاحب کی زندگی میں برکت دے آمین۔
Leave a Reply