تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!کھلابٹ ٹاؤن شپ ہری پور میں ایسی شخصیت کا انتقال ہو گیا جن کی خدمات علمی و دینی ایک شگفتہ گلاب کی طرح تروتازہ رہیں گی۔مرحوم پروفیسر مولانا محمد وارث خطیب جامع مسجد انورہ کھلابٹ ہری پور کی زندگی مثل شمع تھی جو گل ہو گئی۔اللہ مغفرت فرماۓ۔مرحوم کے ایک شاگرد ارشاد خان اتمان زئی نے مرحوم کی زندگی کے چند گوشے بیان کیے جو ان کی محبت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ان کے بقول مذہبی و دینی گھرانہ کے چشم و چراغ اس دنیا سے چلے گۓ لیکن حسیں یادوں کے چراغ روشن کر تے حلقہ محبت میں اچھے اور مخلص شاگرد پیدا کرتے چلے گۓ۔یہ قانون قدرت ہے کہ پھول کھلتے ہیں تو مرجھا جاتے ہیں۔انسان پیدا ہوتے ہیں تو موت کی دیوی کی آغوش میں ہمیشہ سو جاتے ہیں۔بقول شاعر:۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
کھلابٹ کی فضا سوگوار ہے۔قوم اخون خیل اوگی سے آنے والے گھرانہ نے انورہ میں رہائش اختیار کی تو ڈیڑھ سو سال تک دین کی خدمت کی۔جب متاثر ہوۓ تو کھلابٹ انورہ کی بستی میں آباد ہونے والے مذہبی و دینی گھرانہ کے چشم و چراغ نے معلم دینیات سے ملازمت کا آغاز کیا اور محنت سے اپنا مقدس فرض ادا کرتے اپنی منزل کو مدنظر رکھا۔مرحوم محنت و کوشش سے پروفیسر تعینات ہوۓ اور علم کے موتی اپنے شاگردوں میں تقسیم کرتے رہے۔خطیب جامع مسجد انورہ کھلابٹ میں دین کی خدمت کے لیے زندگی وقف رکھی ۔ان کی زندگی تعلیمی ادارہ کے آئینہ میں ہو کہ جامع مسجد میں ایک روشن قندیل کی مانند تھی۔سینکڑوں شاگردوں نے اکتساب فیض کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہر آنکھ افسردہ اور دل درد کی کسک محسوس کرتا ہے۔مرحوم چونکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔انسانیت سے محبت اور مقام آدمیت سے ایک خاص تعلق رہا۔ماضی چونکہ خدمت کے لیے وقف رہا اسی بنا پر ایک شاگرد ارشاد خان اتمان زئی جو اس وقت معلم اور شاعر بھی ہیں۔ان کی شخصیت کی تعمیر میں مرحوم پروفیسر مولانا محمد وارث خطیب جامع مسجد انورہ کا کردار ضرور ہے۔اسی پر اکتفا نہیں سینکڑوں شاگرد آج درد فراق سے افسردہ ہیں۔یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آخر اس سراۓ فانی سے ہر انسان نے چلے جانا ہے۔مرحوم چونکہ ایک مذہبی اور دینی گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے سوگواران سے تعزیت کرنا بھی ہے۔پروفیسر خلیل الرحمٰن,محمد الرحمٰن,عبدالمنان سابق ایس ایس ٹی,عبدالقدوس آزاد سابق پرنسپل,عبدالرزاق اور عبد الخنان کے بڑے بھائی,منیب الرحمٰن اور عبداللہ کے والد ,عبدالغفور اور عبدالشکور کے چچا,مولانا محمد صہیب اشرف جامعہ اہل بیت کھلابٹ اور قاری محمد طیب اشرف کے تایا تھے۔گویا ایک خاندان کے سرپرست تھے۔اس قدر زندگی بسر کی جو مثل شمع اپنی روشنی سے زندگی کی تاریکیوں میں اجالا کرتے رہیں گے۔زندگی کے سفر میں مرحوم نے دین و ایمان کے چراغ دلوں میں روشن کیے جو ایک شاندار کارنامہ ہے۔بحیثیت معلم اور خطیب اپنا مقدس فرض اس خوبی سے ادا کیا کہ آج دنیا ان کے سنہری کام پر دعاؤں کی سوغات پیش کرتی ہے۔اللہ کریم مرحوم کی تمام منزلیں آسان فرماۓ اور سوگواران کو صبر جمیل عطا کرے۔یہ تو قانون قدرت ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے تو اسے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔اس لیے اس کی تیاری کرنی چاہیے۔زندگی تو عارضی سراۓ ہے۔اس لیے آپ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی نصیب ہو۔بات پروفیسر مولانا محمد وارث خطیب جامعہ مسجد انورہ کے انتقال کی ہو رہی ہے۔مرحوم نے خدمت انسانیت کے لیے چونکہ ساری زندگی وقف رکھی اس لیے آج ہر دل میں جدائی کا درد محسوس کیا جا رہا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ خدمت انسانیت کے لیے جو لوگ زندگی وقف کرتے ہیں وہی نامور ہوتے ہیں۔حالانکہ اس سراۓ دہر میں بقول شاعر:۔
ہوۓ نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
Leave a Reply