rki.news
یہ دوستی ہے ، کہ ہے پہلی پہلی فصل کا گُڑ
یہ قُربتیں ہیں ، کہ ہے مشُک بیزیوں کا نشہ
یہ چاہتوں میں ہے ، پربت کی چوٹیوں کا غرور
سلوک ، مینہ میں مٹّی کی سوندھی خوشبو سا
جُڑا ہے جب سے کسی سے یہ رشتۂ بے نام
ہے تب سے خواب کی وادی ، بہار آمادہ
میَں ریگِ ہجر میں ، آہو کوئی سراب زدہ
اور اُس کا پیار ہے شفاف آب کا چشمہ
وہ اتنے پیار سے لب بستہ زخم اُدھیِڑتا ہے
لہو ٹھہر کے اُسے دیکھتا ہے بہتے ہوئے
مہارتوں کی نہایت ہے اُس کے لہجے میں
جو غم بھی دیتا ہے پھولوں سے ، شوخ مہکے ہوئے
یہ تار ہے کسی درویش کے عمامے کا
کہ بازوؤں پہ بندھا ، بارگاہ کا دھاگا
ہے زود اثر ، کسی مرشد کا دَم شدہ تعویذ
کہ حسنِ ہوش رُبا ، ساحرہ کا بندِ قبا
بسا ہوا ہے تصور میں اُس کی آنکھوں کا رنگ
کُجا یہ چشم ، کجُا اسُ کا حسنِ تابندہ
قرار دل کا ، سنا ہے کہ لوٹ لیتا ہے
سکون بخش ، دلآویز سا کوئی چہرہ
کبھی کسی کی قُرابت میں مست سر شاری
کبھی گماں میں بچھڑنے کا خوف و اندیشہ
خواجہ ثقلین سمیطٓ
از قلم یاسمین ریسرچ اسکالر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوجرہ۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*خواجہ ثقلین سمیطٓ*کی
یہ نظم ایک پختہ، حسی اور علامتی شعری تجربہ ہے جس میں محبت، دوستی، قربت، روحانیت اور فراق کو نہایت لطیف اور تہہ دار اسلوب میں برتا گیا ہے۔ ذیل میں راقمہ نے اس کا تنقیدی جائزہ چند اہم پہلوؤں سے لینے کی کوشش کی ہے:
نظم کا مرکزی موضوع انسانی رشتہ ہے،ایسا رشتہ جو نام سے ماورا، مگر اثر میں گہرا ہے۔ شاعر دوستی، چاہت، قربت، خوفِ فراق اور روحانی وابستگی کو ایک ہی جذبے کے مختلف رنگوں کے طور پر پیش کرتا ہے۔
“رشتۂ بے نام” کی ترکیب نظم کو جدید حسیت سے جوڑتی ہے، جہاں تعلقات کی تعریفیں جامد نہیں رہتیں بلکہ تجربے سے متشکل ہوتی ہیں۔
یہ نظم اپنی تشبیہی ثروت کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتی ہے.جیسے:
“مینہ میں مٹّی کی سوندھی خوشبو”
“پہلی پہلی فصل کا گُڑ”،”ریگ ہجر میں آہو”,”شفاف آب کا چشمہ”
یہ تشبیہیں نہ صرف حسی ہیں بلکہ قاری کے تجربے سے جڑی ہوئی ہیں، جس سے نظم میں لمسی، ذائقہ دار اور بصری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ خاص طور پر مٹی، بارش، پانی اور پہاڑ جیسے عناصر نظم کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔
شاعر کی زبان شستہ، کلاسیکی آہنگ لیے ہوئے،جدید احساس سے لبریز ہے۔
فارسی تراکیب (ریگِ ہجر، حسنِ تابندہ، خواب کی وادی) اور روزمرہ حسی پیکروں کا امتزاج نظم کو جمالیاتی وقار عطا کرتا ہے۔
البتہ استعارات کی کثرت قاری سے زیادہ توجہ طلب کرتی ہے، جو عام قاری کے لیے قدرے مشکل ہو سکتی ہے،یہی چیز نظم کو سنجیدہ قاری کے لیے زیادہ موزوں بناتی ہے۔
نظم کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ محض محبوب کی مدح یا وصل کا بیان نہیں، بلکہ:
قربت کی سرشاری،جدائی کا اندیشہ اور محبت میں خوف کی آمیزش کو ساتھ ساتھ رکھتی ہے۔
آخری شعر میں یہ کیفیت خاص طور پر نکھر کر سامنے آتی ہے:
“کبھی کسی کی قُرابت میں مست سر شاری
کبھی گماں میں بچھڑنے کا خوف و اندیشہ”
یہ شعر پوری نظم کا جذباتی خلاصہ محسوس ہوتا ہے۔
مرشد، تعویذ، درویش، بارگاہ جیسے الفاظ نظم کو صوفیانہ فضا دیتے ہیں۔ محبوب محض انسانی نہیں رہتا بلکہ ایک روحانی تجربہ بن جاتا ہے،ایسا وجود جو زخم بھی دیتا ہے تو مہک کے ساتھ۔
یہ نظم ایک سنجیدہ جمالیاتی شعری کاوش ہے۔ اس میں:
تصور کی بلندی،زبان کی نزاکت اور احساس کی صداقت واضح طور جھلکتی
ہے۔ نظم فوری تاثر سے زیادہ آہستہ آہستہ کھلنے والی نظم ہے، جو بار بار پڑھنے پر نئے معنی وا کرتی ہے۔
بحیثیت مجموعی خواجہ ثقلین سمیط کی یہ نظم جدید اردو شاعری میں ایک خوبصورت، حسی اور فکری اضافہ قرار دی جا سکتی ہے
Leave a Reply