عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے اخبارات کی زینت بنی کچھ اہم خبروں نے فوری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ہے ۔ جن میں ایک خبر تو یہ ہے کہ دوائیوں کی قیمتوں میں %300 اضافہ کر دیا گیا ہے ، دوسری خبر شادی ہال پر ودہولڈنگ ٹیکس %10 لگانے کی ہے اور تیسری اہم خبر پنجاب کابینہ کی اپنے ارکان اسمبلی کی تنخواہ بڑھانے کی ہے ۔ بدھو میاں نے خبریں پڑھتے پڑھتے میری طرف دیکھا اور مایوسی سے گردن گھماتے ہوئے کہا ، مجھے پورا یقین ہے کہ اس احتجاج سے عاری قوم نے یہ خبریں بھی سرسری پڑھ کر نظر انداز کر دی ہوں گی کیونکہ ان کو اب اس محاورے ‘ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد’ پر عمل کرنا آ گیا ہے ۔
کبھی کبھی لوگ مذاق میں کہا کرتے تھے ، کہ اب تو شادی اور بچوں کی پیدائش پر بھی ٹیکس لگا دیں ۔ تو لگتا ہے اس بات کی بھی سنوائی ہو گئی ہے ۔ آئی ایم ایف کے کانوں تک کسی نے یہ خبر پہنچا دی ہوگی جس پر تیزی سے عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ اور شروعات حکومت کے ذریعے شادی ہالوں پر ٹیکس لگا کر کر دی گئی ہے ۔
بدھو میاں خود کو ارسطو سمجھ کر فرمانے لگے کہ ہمیں تو اسٹیٹ بنک نے مہنگائی میں کمی کی خوشخبری سنا دی تھی ۔ اور پھر اسٹیٹ بنک نے بنکوں کی اسکیم پر شرح منافع بھی یکدم کم کر کر کے لوگوں کو ملکی حالات بہت اچھے ہونے کی نوید بھی سنا دی تھی ۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ یہ خوشخبری مٹھائی کے بجائے مزید ٹیکسسز لگا کر عام آدمی تک پہنچائی جا رہی ہے؟ آخر اس کے اثرات عام عوام تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے ؟ بدھو میاں کا کہنا ہے کہ مان لیتے ہیں کہ ملکی خزانہ بالکل خالی ہے ، اور ٹیکس لگانا مجبوری ہے ، تو آپ بھی اپنی تنخواہیں اور مراعات کم کرنے کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ کیوں کر رہے ہیں ۔ آخر اس کے چہ معنی دارد ؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ ایک طرف تو مخصوص طبقہ اپنی آسائشوں میں کمی کرنے کو بالکل تیار نہیں ہے ۔ لیکن دوسری طرف عام عوام کے لئے وہ کوئی سہولت دینے کو تیار بھی نہیں ہے۔ ایک طرف پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ خطرے میں نہ پڑ جائے تو دوسری طرف مفت میں سرکاری گاڑیوں میں دوڑتے پٹرول پر کوئی چیک تک نہیں لگایا جاتا کہ اس کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ ایک طرف بجلی مہنگی کر کے عوام کو بجلی کے جھٹکے دئیے جاتے ہیں ، تو دوسری طرف عوام کی ٹیکسوں کے پیسے سے سرکاری دفاتر میں بجلی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جس پر کوئی کاروائی شائد ہی کبھی اخبار کی خبر بنی ہو۔ عوام کو سادگی کی تلقین کرنے والوں کو جب بدھو میاں عوام کے ٹیکسوں پر شاہانہ زندگی گزارتے دیکھتے ہیں تو دل میں جن الفاظ سے یاد کرتے ہیں وہ زبان پر لانے سے ڈرتے ہیں سو جالب کا سہارا لے کر یہی کہہ دیتے ہیں کہ
~ حال اب تک وہی ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
بدھو میاں کہتے ہیں لگتا ہے آئی ایم ایف کے مشیروں میں کچھ پاکستانیوں کی تعداد بھی ہے جو ان کو ٹیکس لگانے کے نت نئے طریقے سمجھاتے رہتے ہیں ۔لیکن کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف عام عوام پر تو ٹیکس لگانے کا حکومت کو مشورہ دیتی ہے ، مگر وہ حکومت وقت سے آسائشوں میں کمی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتی ؟ بدھو میاں حیران ہیں کہ برطانیہ کا وزیر اعظم تو دو کمروں کے مکان میں رہتا ہے اور وہاں کی عوام خوشحال ہے ۔ مگر ہمارے وزیر اعظم کی تو بات ہی جدا ہے عام وزیر بھی جس مکان میں رہائش اختیار کرتا ہے وہ برطانیہ کے وزیر اعظم کے مقابلے میں نہایت شاہانہ ہے پھر بھی عام عوام کیوں غربت کی چکی میں پستی جا رہی ہے ۔
بدھو میاں کہتے ہیں کہ جناب عوام تو ہمیشہ سے قربانی دیتی آ رہی ہے ، لیکن عوام کے نام پر دنیا سے قرض مانگنے والے بھی تو کچھ قربانی دیں اور زیادہ نہیں تھوڑی تو کفایت شعاری کا مظاہرہ کریں ، تاکہ %300 مزید مہنگی ادویات کے حصول میں ناکامی سے مرتی عوام کو کچھ اطمینان تو ہو کہ ہمارے قائدین بھی ہماری طرح قربانی دے رہے ہیں۔ نہ کے عوام کے ٹیکسوں کے پیسے پر باہر جا کر اپنا علاج کروا کر عوام کے دکھ کا رونا روتے دیکھ کر سب کی ہنسی نکل جائے کہ یہ تو صرف مگر مجھ کے آنسو ہیں اور کچھ بھی نہیں
~ آپ بھی تو سرد و گرم برداشت کچھ کیجئے حضور
پس رہی مہنگائی کی چکی میں ہے یہ عوام کیوں
Leave a Reply