میری دوسری کتاب خواب ٹوٹ جاتے ہیں میں سے ایک چھوٹی سی نظم حاضر خدمت ہے نظم کچھ یوں ہے
مگر وہ لوگ بونے تھے
میری دنیا کے لوگوں کو
بہت ہی رونے دھونے تھے
نہ میٹھے تھے نہ کڑوے تھے
نہ گورے نہ سلونے تھے
میری دنیا کے لوگوں کو
بہت ہی رونے دھونے تھے
کہاں پایا تھا کچھ ہم نے
زیادہ تر تو کھونے تھے
بہت اونچا تھا جن کا نام
وہی تو لوگ بونے تھے
وہ ہم سے کھیلتے تھے یوں
کہ گویا ہم کھلونے تھے
بڑا اونچا تھا جن کا نام
بہت وہ لوگ بونے تھے
زندگی میں کبھی کبھار نہیں ہر ہر گام پہ آپ کو ایسے اشخاص بکثرت اور بار ہا ملینگے جن کا ذکر میں نے اپنی اس نظم میں کیا ہے کہ
بہت اونچا تھا جن کا نام
بہت وہ لوگ بونے تھے
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ زیادہ تر انسان اس طرح کے کیوں ہوتے ہیں مطلب پڑنے پہ گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں مگر مطلب نکل جانے پہ طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں. اللہ پاک نے انسان کی بہت ساری بری خصلتوں میں سے ایک خصلت مطلب پرستی بھی بتای ہے. اور یقین مانیے گا اس مطلب پرستی کی اندھی دوڑ میں بگٹٹ بھاگتے بھاگتے بھلے ہم اپنے پیر اور ٹانگیں بھی گنوا لیں ہم اس نفسا نفسی کے کراہت آمیز لیپ کو اپنے تن من پہ لیپنے سے باز نہیں آتے. کبھی آپ نے غور فرمایا ہے عہدوں پہ مرتبوں پہ کون براجمان ہیں وہ جو ان عہدوں کے واقعی میں اہل ہیں یا وہ جو حادثاتی طور پہ ان عہدوں پہ براجمان ہوگیے یعنی جیسے اللہ پاک نے عہدے ان کے نصیبوں میں لکھ چھوڑے اور پھر انھیں ٹرے میں رکھ کر پیش کر دییے کہ لو میاں یہ عہدہ اور یہ وزارت تو تمہارے بن بے کار اور سونا ہی رہتا، دھن بھاگ تمہارے کہ تم نے اس عہدے کو عزت بخشی بعینہ ایسے جیسے حضرت عیسٰی علیہ السلام آگ ڈھونڈنے گیے تھے اور انھیں پیغمبری عطا کر دی گءی یا پھر عہدے یا تو خرید لیے جاتے ہیں یا پھر اپنی حیثیت اور اوقات کے مطابق چھین لیے جاتے ہیں.
دام سے خریدیے
نام سے خریدیے
کھل گءی اسامیاں
آرام سے خریدیے
تو مجھے پہلے پہل بہت حیرت ہوتی تھی کہ لوگ کس طرح اس عارضی سراے میں منہ مانگے دام دے کر اور حقداراروں کا حق مار کر نوکریاں اور عہدے کیسے خریدتے ہیں اور پھر ان عہدوں پر براجمان ہو کر بے حیای، بے غیرتی، چور بازاری اور رشوت کی انتہا ہی کر دیتے ہیں نوکریاں اہلیت کے بل بوتے پہ کم اور رشوت کے بل بوتے پہ زیادہ بکتی ہیں انٹرویوز اور Applications بس دنیا دکھاوے اور دفتری کھاتے بھرنے کے لیے ورنہ آسامیوں کی بھرتی اندر کھاتے ہی ہو چکی ہوتی ہے امتحانی نظام بھی اسی طرز معاشرت کی منہ بولتی تصویر کا منظر نامہ پیش کرنے سے بالکل بھی نہیں ہچکچاتا، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے شناختی مراحل اور باییو میٹرک بھلے رایج ہیں مگر کمرہ امتحانات میں جو دو نمبریاں چلتی ہیں ان سے آپ اور ہم سب بخوبی آگاہ ہیں اور وہ معاشرہ جس کا استاد ہی بک گیا وہ تو گرا نہ زوال کی پستیوں میں اور پھر خدا کی قسم ایسا گرا کہ سمبھل نہ سکا. تو بدقسمتی سے ہم اور آپ اور پھر ہماری آنے والی نسلیں ایسے ہی تھکے ہارے، بکاو اساتذۂ کرام کے ہاتھوں پروان چڑھ رہیں ہیں اور پروان چڑھیں گی. وہ استاد بھی تھے جو طالبعلوں کو بنا کسی لالچ کے اس جانفشانی سے پڑھاتے تھے کہ اپنی جان لڑا دیتے تھے اور آج کل چپے چپے پہ بنے ہوے مہنگے مہنگے پرائیویٹ سکولز اور پھر ان پرائیویٹ سکولز کی بے بسی کا منہ چڑاتی ہوی انھی سکولوں کے ٹیچرز سے سجی ہوی ان سکولز سے بھی زیادہ مہنگی ٹیوشنز اکیڈیمیاں جہاں موٹی موٹی فیسوں کے ساتھ ساتھ باقاعدہ رجسٹریشن فیس بھی وصول کی جاتی ہے اور پڑھای کے سیشنز علیحدہ اور Tests کے sessions علیحدہ.
معلم اور دام
معلم علم کے موتی بکھیرتا تھا یوں
کام تم بعد میں کرنا ہاں پہلے دام لینا
دنیا کی سب سے بڑی آگ بلاشبہ پیٹ ہی کی آگ ہے مگر اس پیٹ کی آگ کے دوزخ کو بھرنے کا وعدہ بھی رب کارساز نے خود ہی کر رکھا ہے تو اگر ہم انسان ہولے ہولے بھی چلیں تو بھی بغیر کسے پکڑ دھکڑ کے ہم احسن طریقے سے رزق حلال کما ہی سکتے ہیں مگر کیا ہے ناں کہ ہمیں کسی بڑے اور مکروہ شیطان نے یہ باور کروا دیا ہے کہ دو نمبری، بے ایمانی اور بے حیائی سے ہم دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر سکتے ہیں تو یونیورسٹیوں میں پروفیسرز نے ، میڈیکل یونیورسٹیوں میں بڑے ڈاکٹرز نے، فلم اور ڈرامہ ا انڈسٹری میں پروڈیوسرز نے، ادبی دنیا میں بے شمار بے ہدایتے اور کن ٹٹے نام نہاد بڑوں نے، خواہ مخواہ ہی اپنے جونیرز کے جی بھر کے استحصال کا مانو ٹھیکا ہی لے لیا ہے. اتنی نفسا نفسی ہے مانو حشر کے میدان سے پہلے ہی کہ ایک حشر کا سا سماں ہے پہلے عہد جہالت میں لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیتے تھےتو معاملہ آج بھی لگ بھگ ویسا ہی ہے. پہلے تو جاہل پیروں فقیروں کے بارے میں ہی سنتے رہتے تھے کہ پیری فقیری کے نام پہ عورتوں کے جسم سے کھلوار کرتے ہیں مگر آج کل تو یہ جنسی درندے گھر کی چوکھٹ تلک آن پہنچے ہیں
میر تقی میر کا کیا ہی حالات حاضرہ کی منظر کشی کرتا ہوا شعر ہے.
اس دور میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
اور میں تو کہوں گی کہ جو لوگ اس جھوٹے زمانے کے نبض شناس تھے وہ آہستہ آہستہ اس جونک زدہ معاشرے کو جونک کی مانند چوس چوس کر اسی جونک کا ایک حصہ بن گیے اور ہمارے جیسے ناک کی سیدھ میں چلنے والے ہاتھ ہی ملتے رہ گیے.
نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم
صنم تارا بچپن ہی سے چاپلوسی میں ہر فن مولا تھی وہ پوفیسرز کی چہیتی تھی اور ہم بدھو صرف عام عوام جنہیں گدھے جیسی مشقت کے لیے رکھ چھوڑا جاتا ہے اور ساری مراعات صنم تارا کے حصے میں آتی ہیں عہدے، دولت اور محبت. اور ہمارے جیسے بونگے صبر شکر کر کے یہ ساری بے ایمانیاں دیکھ کے صرف انھیں لکھ ہی سکتے ہیں ابھی ادبی دنیا کی بے ادبیاں بھی ملاحظہ فرما لیجیے اللہ جانے لکھنے والے کون ہیں کتابوں پہ کتابیں کن کے نام کی لکھی جا رہی ہیں، ہر کسی خواندہ، نیم خواندہ نے اپنی تنظیم بنا رکھی ہے اور ایوارڈز کی بندر بانٹ ریوڑیوں کی طرح جاری ہے. اردو ادب کی کانفرنس پہ کانفرنس ہوے جا رہی ہیں ان نام نہاد سربراہان بونوں کی چھایا تلے ہونے والے اس کل پتلی تماشے کی کوئی باضابطہ حیثیت ہے کیونکہ ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں اللہ پاک سوال کریں گے. تو کیا یہ بونے اس حشر کے میدان میں اپنی بونگیوں کو justifyکر سکیں گے دنیا کے تمام بونوں کے نام کہ ابھی بھی وقت ہے سمبھل جاییں
نہ آدھے تھے نہ پونے تھے
مگر وہ لوگ بونے تھے
نہ گورے نہ سلونے تھے
مگر وہ لوگ بونے تھے
میری دنیا کے لوگوں کو
بہت ہی رونے دھونے تھے
کہاں پایا تھا کچھ ہم نے
زیادہ تر تو کھونے تھے
بہت اونچا تھا جن کا نام
وہی تو لوگ بونے تھے
وہ ہم سے کھیلتے تھے یوں
کہ گویا ہم کھلونے تھے
بڑا اونچا تھا جن کا نام
وہی تو لوگ بونے تھے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com
Leave a Reply