rki.news
تحریر ظفر اقبال ظفر📝
وجود انسانی پہ کچھ حادثے ایسے رونما ہو جاتے ہیں جو نیند میں سوراخ کر کے نہ سونے دیتے ہیں نہ دل و دماغ کی تھکاوٹ اترنے دیتے ہیں روز نا تھمنے والے درد کی طرح سکون حیات پہ غالب رہتے ہیں
جنہیں دنیا راس نہیں آتی ان کے لیے تو ایک مصیبت سے دوسری مصیبت تک کا درمیانی فاصلہ ہی سکون حیات کہلاتا ہے جو تھکاوٹ اترنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے
ہم رائٹروں جیسے حساس لوگوں کی دنیا بھی بڑی عجیب ہوتی ہے جس میں تنکہ بھی تلوار کی طرح لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے جذبات سے خون بہنے لگتا ہے
بے قصور انسانوں کو اپنی غرض کے لیے دکھ دینے والوں کے لیے دل سے آہ نکلتی ہے کہ اے ہوس زر کی نحوست میں لپٹی ہوئی بدبودار روحو خدا تمہارے غموں کی عمر دراز کرئے اور تم یونہی دوزخ کے دروازے پر بیٹھے اپنی ہوس مال کی آگ دہکاتے رہو🤲
برا وقت کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو مگر ایک اچھا کام کر ہی جاتا ہے کہ آپ نے مشکل وقت میں کام آنے والے جو لوگ برسوں سے دامن حیات میں ہیرے موتی سمجھ کر سنبھالے ہوئے تھے وہ ضرورت پڑنے پر پتھر اور کنکر نکلے
اور جو حقیقی ہیرے ہوتے ہیں وہ درد میں دوا بن کر انسان کو ہمیشہ کے لیے خرید لیتے ہیں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اِنسانیت کے زخموں پہ قدرت کی مرہم جیسے ہیں
مشکل وقت کے منظروں میں یاد رہ جانے والا ایک منظر یہ بھی تھا جب خدا نے لوگوں کے لیے جنت کی فکر کرنے والے ایک بندے کے پاس مدد کو بیجھا تو اس نے فریاد سن کر واپس اسے خالی ہاتھ خدا کے طرف بیجھ دیا
مایوس لوٹنے والا کبھی یہ سوچتا کہ خدا مجھے آزما رہا ہے یا جس کے پاس بیجھا تھا اسے آزما رہا ہے
اور کبھی یہ سوچتا کہ یہ جو دنیا کی آسانیاں رکھتے ہوئے اپنا مال تقسیم نہیں کرتے خدا ان سے بھلا اپنی جنت کیسے تقسیم کروا سکتا ہے
کوئی ایک ایسی جماعت بھی تو ہونی چاہیے جو مشکل زدہ لوگوں کی آخرت کی بجائے دنیا آسان کرنے والے دین پہ عمل کرے جو بندہ بندہ نہ کما سکا اس کا خدا کمانے کا دعویٰ جھوٹا ہے
انسانی دل خدا کا تخت ہے جو اسے توڑتا ہے وہ خدا کے تخت پہ حملہ کرتا ہے اور جس تجلی نے کوہ طور جلا دیا وہ انسانی شاہ رگ کے قریب سلامتی سے بستی ہے
کیونکہ خدا نے زمین پہ رہنے کے لیے انسانی وجود کو اپنی پناہ گاہ بنایا ہوا ہے وہ انسان کو اندر سے جانتا ہے
شاید اسی لیے خدا نے انسانوں کے گنہگاروں کو خود معافی نہ دینے کا اختیار اپنے پاس نہیں رکھا
خدا کا بندہ جتنا خدا کا ہے اتنا تمہارا بھی تو ہے
پھر بھی یہ آدمی انسان ہونے کی عظمت نہیں سمجھتا عجب غفلت ہے اپنے آپ کو نہیں سمجھا جا رہا
میں مدت سے آدمیوں کے انسان ہونے کو ترس رہا ہوں
Leave a Reply