تازہ ترین / Latest
  Wednesday, October 23rd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

میری زندگی کے حسین گوشے

Articles , Snippets , / Tuesday, March 19th, 2024

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور۔پیارے قارئین ! میری کیا مجال کہ میں یاد ماضی کے دریچوں میں سے کچھ لکھ پاؤں کیونکہ زندگی تو ایک کتاب کی مانند ہے اس کا ایک ایک گزرا لمحہ ایک داستان ہے۔ایک روداد ہے۔میری زندگی کے سفر کی خوبصورتی اور دلکشی میں میرے والدین،اساتذہ کرام سکول سے پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ تعلیم و تحقیق کی دہلیز تک اساتذہ کرام اور افراد معاشرہ کا کردار ہے۔دیار صحافت اور خیابان ادب و سخن میں بھی بہت سی ہستیوں کا کردار ہے ۔تذکرہ تو بہت طویل ہے لیکن تمنا مختصر سی ہے کہ کچھ تو لکھوں۔کیونکہ عصر نو کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ محسنوں کا تذکرہ ضرور کیا جاۓ۔ویسے بھی وہ لوگ کتنے عظیم ہوتے ہیں جو دوسروں کی خوشیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کی تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے کردار ادا کرتے ہیں۔میں کالم نگار کیسے بن پایا اس کا تذکرہ کالم کی خوبصورتی سمجھتا ہوں۔بقول شاعر:.
شمع کی صورت جیئیں بزم گہ عالم میں “کے مصداق اس قابل بنانے میں کردار ادا کیا۔ایبٹ آباد سے روزنامہ شمال کے بانی نیاز پاشا جدون مرحوم کا شمار بھی میرے محسنوں میں ہوتا ہے۔اسلام آباد میں ایک عظیم ہستی سہیل الیاس چوہدری کا شمار بھی میرے اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے صحافت کے اسرار ورموز سمجھاۓ ۔موصوف اس دنیا سے کافی عرصہ ہوا کوچ کر گۓ۔اللہ کریم ان کی قبر کو منور فرماۓ ۔اور جنت کے باغوں میں باغ بناۓ۔ہری پور سے ممتاز ترین مرحوم کا نام میرے دل کی کتاب میں ہے۔مرحوم نے زندگی کے سفر میں اور قلم کی حرمت کے اصول سکھاۓ۔اللہ کریم ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ۔اسلام آباد سے ایک بہت ہی پیاری ہستی جناب عقیل احمد ترین کا نام اس تحریر میں شامل کرنا اعزاز سے کم نہیں۔شہزاد افق صاحب جو ادب سماج انسانیت کے بانی اور ادارہ انٹرنیشنل رائیٹرز فورم پاکستان کے چیئر مین بھی ہیں ان کا نام بھی شامل کرنا لازم سمجھتا ہوں لاہور سے محترم جناب عزت مآب نواب ناظم صاحب کا نام تو اور بھی فخر سے لینا چاہتا ہوں جنہوں نے بہترین رہنمائی فرمائی اور اس قابل بنایا کہ کچھ تو لکھ پاؤں۔نواب ناظم صاحب نے تو اس قابل بنایا کہ مصنفین کی کتب پر تبصرہ لکھ سکوں اور اللہ کے فضل سے متعدد مصنفین کی کتب پر تبصرہ لکھنے کا اعزاز مل چکا ہے۔شہزاد افق تو ایسا رہنما اور دوست ہیں جنہوں نے ”کتاب چمن کی فکر“ کا مصنف بنانے میں کردار ادا کیا ۔بات طویل ہو گئی ۔۔۔۔۔
ملک بھر سے شائع ہونے والے اخبارات میں بے شمار کالم شامل اشاعت ہوتے رہے جو مدیران و مالکان کی راقم الحروف سے خصوصی محبت ہے۔اس ضمن میں میری کیا بساط ؟کہ میں تفصیل سے لکھ سکوں لیکن عنوان اس قدر اہم ہے کہ قارئین کو یہ ضرور بتاؤں کہ بقول شاعر:.
دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے کے مصداق میری ادبی زندگی سنوارنے میں اور کالم نگار بنانے میں سب نے کتنا کردار ادا کیا؟ یہ خوبصورت داستان ہے جو بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں ۔ہری پور کی سرزمین کے صحافی اور تجربہ کار ہستیاں ڈاکٹر چن مبارک ،مشرف ہزاروی،حنیف ہزاروی،ملک اقبال،خانزادہ خان مرحوم, اللہ ان کی قبر کو روشن اور منور فرماۓ،ارشد محمود بوبی،عصمت مشوانی،اقبال تربیلوی،حافظ سرفراز ترین،حافظ جاوید الحق ،جاوید عباسی سینیئر صحافی ہری پور محترم ابرار تنولی ,ذاکر حسین تنولی ,ملک محمد اقبال ,شاہد تبسم اور دیگر روشن ستاروں نے میری سرپرستی فرمائی اور میری تحریریں شامل اشاعت کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو مثل شمع میرے دل میں آج بھی ہیں کیوں نہ ہو یہ تو لازم ہے کہ استاد کو عزت دو۔۔۔تسلسل رکتا نہیں ایبٹ آباد سے ہفت روزہ منظر کے چیف ایڈیٹر اقبال مغل, ،نیاز پاشا جدون صاحب بانی روزنامہ شمال ایبٹ آباد،روزنامہ محاسب ایبٹ آباد،روزنامہ آج ایبٹ آباد،روزنامہ ہزارہ ایکسپریس کے بانی سردار افتخار تو قابل تعریف شخصیت ہیں جو میری رہنمائی فرماتے رہے۔ماضی کے دریچوں میں سے انتخاب تو مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں انشاء اللہ ایک بسیط تذکرہ ضرور لکھوں گا۔تاہم اس کالم میں اتنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ قارئین کی دلچسپی کے لیے کچھ تو لکھوں۔۔تاہم جن عنوانات پر میری تحریریں اخبارات کی زینت بنیں اور مجھے پذیرائی ملی یہ بھی اعزاز کی بات ہے۔ملک بھر سے متعدد اخبارات میرے کالم انتہائی خوبصورتی سے شامل اشاعت کرتے ہیں ان کے مدیران و مالکان کا شکریہ ادا کرنا فرض اولین سمجھتا ہوں۔محترم جناب نواب ناظم جیسی ہستی تو بہت محبت سے میری تحریریں شامل اشاعت فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ روزنامہ سسٹم لاہور اور روزنامہ بارڈر لائن لاہور میں معمول کے مطابق تحریر شامل اشاعت ہوتی ہے یہ ان کا خلوص ہے جو لکھی گئی تحریر کا احساس کرتے ہوۓ اپنے اخبارات میں مناسب جگہ عطا کرتے ہیں گویا ان کی مثال تو ایسی ہے جیسے بقول شاعر:.
جب تک بکے نہ تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا
آپ نے خرید کر انمول کر دیا
اللہ بھلا کرے شہزاد افق صاحب کا انہوں نے ایک پروگرام کیا تھا جس میں نواب ناظم جیسی ہستی سے ملاقات کروائی تھی جو اس قدر خوشگوار ثابت ہوئی کہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔راقم الحروف نے تو موصوف کی کتب پر تبصرہ لکھنے کی کوشش بھی کی ۔موصوف نے جدید ایڈیشن ”نبیرہ ذوق“جو موصوف نے اپنے استاد سخن فصیح الکلام علامہ ذوقی نگری صاحب کی زندگی اور فن شاعری پر تحقیقی دستاویز ہے۔موصوف نواب ناظم صاحب اس کے مصنف و مؤلف ہیں۔راقم کی تحریر ”نبیرہ ذوق“حسن و خیال کے آئینہ میں شامل اشاعت فرمائی ہے جو کتاب کے صفحہ اکتیس پر موجود ہے۔یہ موصوف کی خصوصی الفت اور پیار ہے۔استاد محترم شہزاد افق جنہوں نے راقم کو صاحب کتاب بنانے میں قابل قدر کردار ادا کیا ۔موصوف نے کتاب ”ادب سماج انسانیت “ دو ہزار بائیس جو ادبی،سماجی،تعلیمی،فلاحی،ثقافتی،سرگرمیوں کے تحریری نقوش پر مشتمل ہے اس خوبصورت کتاب میں راقم کا تعارف ،شامل کیا۔اسی پر اکتفا نہیں کتاب ادب ،ادیب،قلم میں تعارف اور تحریر ”قومی اور ملی یکجہتی کے عنوان سے شامل اشاعت فرمائی۔جو اعزاز کی بات ہے۔ ۔تذکرہ تو بڑا طویل ہے ۔میرے محسن اس قدر کہ ان کے نام نہ لینے سے یہ کالم ادھورا سا محسوس ہوتا ہے۔ہری پور سے ابرار خان جدون تو ایسی شخصیت ہیں جن کا تعلق موضع برتھال ہری پور سے ہے۔میری حوصلہ افزائی اور پذیرائی میں ان کا اہم کردار ہے۔خان جاوید خان سراۓ صالح ہری پور سے سینیئر صحافی ہیں آج تک رہنمائی کر رہے ہیں۔شاہد تبسم تو میرے بہترین رفیق ادب و صحافت ہیں۔گویا میں تو مناسب سمجھتا ہوں کہ :. ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا ۔۔۔مہربان ہستیوں میں اعظم شاہ صاحب،فیاض خان سراۓ صالح ,سید حسن رضا شاہ شاہ مقصود جو بہترین خبر نگار اور اچھے صحافی ہیں۔صداقت خان صاحب کی صحافتی خدمات،یونس مجاز کی صحافتی اور ادبی حیات سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ذولفقار مغل صاحب تو ہمیشہ عزت و احترام کا درجہ دیتے ہیں صحافت و ادب کا سرمایہ ہیں دلدار ستی صاحب ایبٹ آباد،بابو شوکت پھرہالہ ہری پور,وحید ربانی صاحب ہری پور اور دیگر ۔۔میں تو سب کی عظمت کو سلام کرتا ہوں ۔یہی اصول زندگی اور دستور زمانہ بھی ہے کہ محبتوں کے پھول تقسیم کیے جائیں۔بخشیش الٰہی جیسے صحافی کا تذکرہ اس لیے کہ مرحوم کے ساتھ جب بھی ملاقات ہوتی تھی تو خندہ پیشانی سے ملتے ۔اگرچہ وہ اس سراۓ فانی میں نہیں رہے لیکن یادیں ان کی زندہ ہیں۔اللہ کریم ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ۔بات طویل ہو گئی لیکن کیا کروں ہر ہستی میرے لیے ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے۔اللہ کریم سب کو خوش رکھے۔ اور جو ہستیاں اس دار فانی سے الوداع ہوئیں ان کے لیے دعائیہ کلمات۔۔ عصر حاضر میں محبتوں کے سلسلے اور بھی طویل ہیں۔اس کی بنیادی وجہ شاید سب کا خلوص اور حسن اخلاق کا کرشمہ ہے کہ کالم کی جان حسین ناموں اور محبت کرنے والے محسنو ں کے تذکرہ کو ہی سمجھتا ہوں۔اسلام آباد سے محترم خوشنود علی خان کے اخبار میں تعلیمی کالم شامل اشاعت ہوتے رہے۔اسلا م آباد سے عقیل احمد ترین صاحب روزنامہ دی کیپیٹل پوسٹ اور روزنامہ غزنوی راولپنڈی میں کالم شامل اشاعت فرماتے اور اسلوب نگارش سکھاتے رہے ۔اللہ کریم موصوف کو اور بھی بلند مقام عطا فرماۓ،روزنامہ ملتان ویلی کے چیف ایڈیٹر ساجد یامین صاحب تو اس حد تک محبت کرتے ہیں کہ راقم کا ہر کالم ترجیحی بنیادوں پر شامل کرتے ہیں۔ملتان کی سرزمین سےخالد سلیم گوجر صاحب کا کردار بھی قابل تعریف ہے کیونکہ موصوف میرے کالم شامل اشاعت فرمانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے…


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International