ناز پروین
بدلتے زمانے کے تقاضے بھی بدلتے جاتے ہیں۔آج کل ایک مسئلہ جو تقریباً ہر گھر میں درد سر بنا ہے وہ ہے بچوں کے رشتے۔پہلے تو اپنے دوستوں رشتہ داروں ذات برادری میں ہی ڈھونڈ ڈھانڈ کر رشتہ کر لیا جاتا تھا اس کام کے لیے اکثر گلی محلوں میں مخصوص عورتیں ہوتی تھیں جنہیں مقامی زبان میں وچولن کہا جاتا تھا ۔اس کے بعد بتدریج ترقی کرتے ہوئے ہم میرج بیوروز تک آن پہنچے ۔پوش علاقوں میں جدید تراش خراش کے لباس پہنے ادھیڑ عمر خواتین دفتر سنبھالے بیٹھی ہوتی تھیں۔ایک اسسٹنٹ رجسٹر لے کر آجاتی ۔لڑکے یا لڑکی کی تصویر مانگی جاتی۔پھر معیار کی طرف آیا جاتا کہ کیسا خاندان چاہیے لڑکا یا لڑکی کس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔اس وقت سر فہرست ڈاکٹر لڑکیوں کی مانگ ہوتی ۔ایک میرج بیورو والی نے بتایا کہ کیپٹن کی ماں ڈینٹسٹ پر بھی راضی نہیں ہوتی ۔۔۔اسے تو ڈاکٹر ہی چاہیے ۔۔۔یہ الگ بات کہ شادی کے بعد یہی مائیں ان ڈاکٹروں کو گھر بٹھا لیتی ہیں انہیں پریکٹس نہیں کرنے دیا جاتا کہ اب گھر گرہستی سنبھالو۔خود اپنے نزدیک کے رشتہ داروں میں یہ صورتحال دیکھنے کو ملی جہاں اچھی خاصی لائق فائق ڈاکٹر بچیاں شادی کے بعد اب ایک گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔اگر پریکٹس نہیں کرنے دینی تھی تو ڈاکٹر پر اتنا زور کیوں۔صرف نمائش کی خاطر کہ ہماری بہو ڈاکٹر ہے ۔کسی زمانے میں شرافت کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اب مال و دولت جاہ و ہشم دیکھا جاتا ہے حسب نسب شرافت نیک نامی جانے معیار کی لسٹ سے کب اور کیسے نکل گئیں۔اس کے ساتھ ہی ایک لمبی چوڑی فیس۔رجسٹریشن کے نام پر ہزاروں روپے بٹورے جانے لگے ۔ایسے ہی ایک میرج بیورو کی خاتون مسز خان کا مارننگ شو میں انٹرویو ہوا اورچاروں جانب دھوم مچ گئی ۔مسز خان نےبغیر لگی لپٹی واشگاف الفاظ میں کہہ ڈالا کہ بچیوں کو چاہیے کہ وہ شوہر کے آنے پر اس کو گرم گرم روٹی پکا کر دیں شوہر کے جوتے صاف کریں اگر شوہر کچھ کہہ دے تو برداشت کر لیں ۔صرف اسی صورت میں شادی نبھ سکتی ہے ۔اس انٹرویو پر ایسا شور مچا مسز خان کے سوشل میڈیا پر ایسے لتے لیے گئے کہ الامان۔ان میں اکثریت خواتین کی تھی جو مسز خان کے خیالات سے بالکل بھی متفق نہیں تھیں ۔بہت کم خواتین نے ان کی باتوں کو سراہا البتہ مرد حضرات کی اکثریت ان کی حامی تھی ۔زیادہ تر لوگ میرج بیوروز سے خائف تھے کہ ان کی بھاری بھرکم فیسیں بھرنا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ممکن نہ تھا۔اور پھر آیا سوشل میڈیا کا زمانہ۔اب تو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسی ویب سائٹس بن چکی ہیں جہاں معمولی فیس دے کر اپنے بیٹے یا بیٹی کے کوائف اور تصاویر اپلوڈ کر دیں ساتھ میں مطلوبہ معیار کو بھی درج کر دیں۔ نہ صرف ملک بھر بلکہ بیرون ملک سے بھی رشتوں کے سلسلے میں لوگ رابطہ کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ان میں سے چند ویب سائٹس خود بھی دیکھیں ۔ان میں کوائف بہت دلچسپ تھے زیادہ تر ویب سائٹس پہلے سے تیار شدہ ڈیجیٹل فارم مہیا کرتی ہیں آپ آن لائن ہی ان کو فِل کرتے ہیں ۔زیادہ ترویب سائٹس میں ماں باپ کی جگہ لڑکے یا لڑکی نے خود اپنے کوائف درج کر کے رابطے کے لیے اپنا ہی نمبر دیا ہوتا ہے ۔گویا ماں باپ اب بیچ میں سے نکل ہی گئے اب بچے خود ہی اپنے رشتے طے کرتے پھریں گے ۔ان کوائف میں ایک دلچسپ بات سوشل سٹینڈرڈ بھی درج کرنا ہے یعنی آپ کا بزنس کیا ہے آپ کتنے مرلے کے گھر میں رہتے ہیں۔گھر اپنا ہے یا کرائے کا ۔ آپ کس علاقے میں رہتے ہیں۔کچھ لوگوں کی ڈیمانڈز میں درج تھاکے صرف پوش علاقے کے رہائشی ہی رابطہ کریں ۔ذات برادری پر بھی بہت زور ہے۔کچھ خاص ذاتوں کا خاص طور پر نام لے کر منع کیا جاتا ہے کہ اس ذات سے تعلق رکھنے والے لوگ رابطہ نہ کریں اور ایسا صرف لڑکے والوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ لڑکی والوں کی طرف سے بھی کہا جاتا ہے ۔لو جی جدیدیت تو اختیار کر لی سوشل میڈیا کے ذریعے رشتہ بھی طے کرنا ہے لیکن ذہنی سطح وہی پتھر کے زمانے کی۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ نیک شریف لوگ ہوں ۔ہاں البتہ کچھ لیکن بہت ہی کم ایسے بھی لوگ دیکھے جنہوں نے لکھا تھا کہ شریف معزز خاندان ہو شادی انتہائی سادگی سے ہوگی اور جہیز بالکل نہیں لیا جائے گا ۔بچوں کے رشتے طے کرنا اتنا گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے کہ ں اس نے باقاعدہ دکانداری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کچھ مشہور نیوز چینلز اپنے خبرنامے کے دوران اپنی رشتہ ویب سائٹس کی مشہوری کرتے ہیں باقاعدہ تصویروں کے ذریعے بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ کی لڑکی کا فلاں ملک کے لڑکے سے ہماری ویب سائٹ کے ذریعے رشتہ طے ہو گیا۔اور پھر خاص دنوں میں عام دکانوں کی طرح سیل بھی لگتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ان دنوں سے فائدہ اٹھائیں اور آدھی فیس پر رجسٹریشن کروائیں۔ وقفے کے دوران جہاں ٹوتھ پیسٹ شیمپو کے اشتہار چلتے ہیں وہیں ان ویب سائٹس کی بھی اشتہار بازی ہوتی ہے۔یہ تو ذکر تھا سوشل میڈیا کا ۔ لیکن اب بھی زیادہ تر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں میں ہی بچوں کے رشتے طے کر دیے جائیں ۔ایک تو چھان بین کی ضرورت نہیں دوسرا بھروسہ ہوتا ہے کہ خونی رشتوں کا لحاظ کر کے بچوں کا خیال کیا جائے گا۔خالہ ایک بہت میٹھا بہت پیارا رشتہ ہے۔خود ہمارے اپنی خالاؤں کے ساتھ بہت پیار بہت محبت کی یادیں ہیں۔خالہ کو ماں کا عکس بھی کہا جاتا ہے ماں کی بہن ہونے کے ناطے خالہ اپنے بھانجے بھانجیوں سے بے لوث پیار کرتی ہے ۔ان کے لاڈ پیار اٹھاتی ہے۔سیالکوٹ ڈسکہ کی زہرا قدیر کی ماں کو بھی اسی رشتے کا مان تھا ۔اپنی جوان خوبصورت بیٹی کا رشتہ اس نے اپنی بہن کے گھر کر دیا اسی امید پر کہ خالہ ہونے کے ناطے وہ اس کا بھرپور خیال رکھے گی لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اس کی بہن کے سینے میں دل کی جگہ پتھر رکھافق ہے ۔زہرا قدیر دو سالہ بچے کی ماں اور سات ماہ کی حاملہ تھی ۔زہر ہ قدیر کی ساس بظاہر ایک عورت صنف نازک لیکن درحقیقت ایک سفاک جلاد۔لگاتار کئی دن تک چینلز پر زہرا قدیر کی معصوم صورت اس کے دو سالہ بچے کی تصویریں چیختی چنگھاڑتی خبروں کے ساتھ نشر ہوتی رہیں کہ کیسے اس کی لاش کے ٹکڑے بوری میں بند گندے نالے سے برآمد ہوئے۔تفصیلات ایسی کہ خوف سے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔کیسے کوئی اتنا پتھر دل اتنا سفاک ہو سکتا ہے اور وہ بھی ایک عورت۔۔۔قصور اتنا کہ بیرون ملک بیٹا اپنی بیوی کو چاہتا تھا اسے خرچ کے لیے پیسے بھیجتا تھا اور یہی زہرہ کا جرم ٹھہرا ۔۔۔ایسا سنگین جرم جس کی سزا اس معصوم بچے کو بھی دی گئی جو اس دنیا میں بھی نہیں آیا تھا ۔اس جرم میں اب تک آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں زہرہ کی خالہ کے علاوہ اس کی نند یعنی خالہ زاد بہن اور اس کا بیٹابھی شامل ہیں۔زہرا کی خالہ نے پولیس کو بتایا کہ جب اس کی لاش کے ٹکڑے کیے تو سات ماہ کا بچہ اس کے پیٹ سے زندہ برآمد ہوا۔ اس بچے کے بھی ٹکڑے کر دیے گئے ۔یہ جملے لکھتے وقت میرے ہاتھ لرز رہے تھے یا خدا اتنی سفاکیت اتنی حیوانیت ایسی بربریت۔۔۔ وہ بھی اپنی سگی خالہ کے ہاتھوں۔۔ہم اپنی بیٹیوں کے رشتے اپنے سگے رشتہ داروں کے گھروں میں کرنے پر مطمئن ہوتے ہیں کہ وہ یہاں پر محفوظ ہوں گی ان کا خیال رکھا جائے گا لیکن جب اپنے ہی اتنے جنونی نکل آئیں تو سوچ کے دل لرز جاتا ہے کہ غیروں کا کیا اعتبار۔آپ میں ہم سب کو اللہ نے بیٹیوں کی نعمت سے نواز رکھا ہے ۔ہم سب کسی نہ کسی مرحلے پر اپنی بیٹیوں کی جدائی برداشت کر کے پیا سنگ روانہ کر دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے مذہب کی طرف سے بھی یہی حکم ملا ہے اور معاشرے کی رِیت بھی یہی ہے ۔
ساڈا چڑیاں دا چمبا وے
بابل اساں اڈ جانا
لیکن ایسے لرزہ خیز واقعات سن کر دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ یہ بیٹیاں ہماری گڑیاں بابل کے آنگن میں چہکتی چڑیاں ہنستی کھیلتی ۔۔۔۔دلوں میں ارمان سجائے ۔۔آنکھوں میں حسین مستقبل کے سپنے بنے جھلملاتی ہوئی سجی سنوری پریوں کی طرح رخصت ہو جاتی ہیں ۔ہمارا معاشرہ دن بدن رو بہ زوال ہے ۔اخلاقی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے ۔صرف اور صرف مال و دولت کی حرص اور لالچ ہی ہر طرف رقصاں ہے ۔کیا پھر سے ظلمت کا وقت تو پلٹ کر نہیں آرہا۔۔۔ جب بیٹیوں کی پیدائش پر شرمندگی سے منہ لپیٹ کر پھر ا جاتا تھا ۔پیدا ہوتے ہی انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔اللہ ہمارے حالات پر رحم کرے ۔۔ تقریباً ایک صدی قبل قرۃ العین حیدر نے فریاد کی تھی آج زہرہ قدیر کی روح بھی خدا سے ویسے ہی فریاد کناں ہے
”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو“
Leave a Reply