تحریر: ظفر اقبال ظفر
عمر کا توٹھیک سے نہیں بتا سکتا مگر بڑھاپے کی جانب رواں سوکھا جسم ہڈیوں کا کوئی چلتا پھرتاڈھانچہ جیسے بڑے سائز کا بے وزن تنکا ہواس پر کپڑوں کا حال یہ کہ قمیض کاگریباں پھٹا ہوا آگے پیچھے سے کئی سوراخ بوسیدہ آستین سے ان کی کہنیاں جھانک رہی تھیں ایک ایسا انسان معلوم ہوتاتھا جس کے نزدیک حیات انسانی ایک بے گور و کفن لاش ہے مگر یقین مانیں ان کو زمانے کی نگاہوں کی زرا بھر بھی پروا تھی نہ وہ کسی دنیاوی قدروقیمت پر مبنی چیزوں سے متاثر تھابلکہ انہیں بڑا حقیر مانتا تھا وہ نگاہ نفرت سے نابینا تھا ان کی باہری حالت پہ ترس کھانے والے ان کی اندرونی حالت کو جانچ جائیں تو معلوم ہو گاکہ یہ تو علمی صاحب الیاقوت المرجان ہیں جنہیں چہرہ خوانی میں اس قدر بصیرت حاصل تھی کہ آدمی کی صورت دیکھتے ہی اس کے خیالات معلوم کر لیتے اور بغیر پوچھے سوالوں کے جواب دے دیتے۔
بیزار دنیا افراد کے لیے ان کی صحبت آسمانی سکون پر میسر ہوتی جس سے ان کی محبوبیت کا سکہ دلوں میں بیٹھ جاتا ان کی شخصیت کی مقناطیسیت نے میرا دل موہ لیا میں اک عرصے سے اخلاق محمدی ؑ کے مالک لوگوں کو شرافتوں کی خوردبین لگا کر تلاش کرتا رہاہوں ان سے مل کر میرے سفر کو منزل کا احساس ہونے لگا۔اسلامی تاریخ میں چمکتے روشن ستارے جن کو صحبت محمد ؑ میں دینے کے لیے آسمان نے زمین کے چکر لگائے ہوں اور خاک کے پردوں سے نکال کر نبی ؑ کے حوالے کیے ہوں یہ روحانی محفل محمد ؑمیں پہنچے لوگوں پر انعامات کا تزکرہ ہے جو کہیں کہیں کسی کسی پر ہوتا ہے عجب محبت محمد ؑ ہے جس کاجواب محبت خدا ہے اس انعام کے حامل احباب پر آسمانی کیفیات جاننا سننا اور بتانا مجھے بے حد پسند ہے بلکہ یہ کہہ لیجئے کہ میری رُوح کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے جس کی ڈیوٹی میں رہنا زمانے بھر کے احساس کمتری میں جکڑے دماغوں کو کو سنے کے درد سے نجات دلاتا ہے۔
جی آئیے میں آپ کو آسمانی نوازشات کے حامل شخص کی جانب دوبارہ لئے چلتا ہوں اگر ان جیسے لوگ خدا پیدانہ کرتا تو دنیا کی دلدل میں پھنسے لوگ مرتے دم تک آسمان کی جانب کھینچنے والی روح کی بیداری سے محروم ہی رہتے۔یہ دم درود اور دعا سے زمین کے زخموں پر مرہم لگاتے اور خدا شفا سے مستفید کرکے لوٹا دیتا ان خدا کے ساتھ مل کر بندوں کے درددور کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اقتدار کے تاج سے خدمت کی جوتی کا مقام اونچا ہوتا ہے۔
مزاج خدا عطائے خدارضائے خدا روٹھے اور منائے خدا کی باتیں ان کے سامنے ان کی کھجور کے پتوں سے بنی بوسیدہ چٹائی پر بیٹھ کرسنتے تو ہیرے جواہرات سونے چاندی دولت اقتدار پر سجے تخت نظروں سے یوں گرتے جیسے خزاں کی تیز ہوا سے سوکھے پتے درختوں کی ٹہنیوں سے جدا ہوکر زمین پر آ گرتے ہیں وہ باتیں کرتے کرتے جب خاموش ہو جاتے تو میں ان کی خاموشی سننے لگتا ایک ایسی خاموشی جو آوازوں سے زیادہ قدروقیمت کی مالک ہوتی اور جب وہ دوبارہ بولتے تو میں سرجھکائے خاموشی کے سمندر میں ڈوب جاتا۔وہ کہتے کہ ہر بات ہر بندے کے لیے نہیں ہوتی عرق گلاب بیمار کے جسم میں اترے تو بلغم پیدا کرتا ہے اور تندرست کے جسم میں اترے تو حیات آفریں ہو جاتا ہے ایسے ہی کتنے خدائی علم و راز ہیں جو کم عقل کے لیے زہر اورعقل مند کے لیے تریاق بن جاتے ہیں۔
میں ان کی روحانی زہنی قلبی قدروقیمت کو نایاب محسوس کرتے حیرت میں ڈوبی تعریف کرنے لگا تو مجھے فوری روک دیا اور کہا کہ خود پسندی بھی نفس کی غذا ہوتی ہے تعریف صرف خالق کے لیے ہے تخلیق بننے والے کا فرض صرف شکرگزاری ہونا چاہیے ہم سب اُس مالک کی پیداوار ہیں جس کی کوئی تخلیق کمتر ہو ہی نہیں سکتی شکوہ تو پہچان کی آنکھ سے محروم لوگ کرتے ہیں مدعاسرائی کا افضل مقام خدا اور محبوب خداؑ کی ذات ہیں۔میری زات پر تو ان کا یہ کرم ہے کہ مجھے وہ صاحب نظر بنا دیا جو گنہگاروں کے ماتھے پر کثیر اُبھرتے سجدے دیکھ انہیں توبہ کے غسل کی یاد دلاتا ہے اور رضاالٰہی کے جائے نمازتک جانے میں مدد کرتا ہے۔
صبح ازل سے شام ابد تک عشق نے جذبہ انسان کو ہی نہیں اختیارخدا کو بھی دبوچ رکھا ہے اور اس طاقت عشق کا نام ہیں محمدؑ۔اُن کی آمد کی صورت میں آسمان نے زمین کے منھ پر مٹھاس اتار دی جہاں جہاں آپ ؑ کے مبارک وجود کا قیام رہا فرش زمین کا وہ حصہ عرش بریں کے خاص دھیان میں رہا اور جانتے ہو اُن ؑ کی محبت کا عالم یہ ہے کہ اب بھی اُن کی روحانی اور جسمانی نگاہیں اُمت کے گنہگاروں پر سے گزرتی ہوئیں طالب معافی کے منظر لیے خدا کے دیکھنے میں جا دیکھتی ہیں۔
یہ سنتے ہی شدید حیرت بے پناہ شرمندگی اور لامحدود تشکر کے باعث میرا کلیجہ منھ کو آنے لگا اور آنکھوں سے اشکوں کے چشمے بہنے لگے محبوب خدا ؑ مجھ گنہگار اُمتی سے محبت فرما رہے ہیں قربان جاؤں اپنے آقا ؑ پہ کہ جن کا مبارک و مقدس چہرہ تصور جمال خدا کے سانچے میں ڈھالا گیا اور خدا کی نگاہوں کے مشورے سے خدوخال تراشے گئے وہ بھی کیا منظر ہوگا جب خدا اپنے آپ کے ساتھ حالت مشورے میں ہوگا اور محبوب کو محبوب کی پسند سے اپنی پسند کا تخلیق کیا ہوگا میں توتصوراتی دنیا میں اپنے محبت کے تراشتے خیالوں میں بھی محبوب خدا ؑ کے حسن کا بھار لفظوں پر ڈالتا ہوں تو الفاظ اس احساس میں کانپنے لگتے ہیں کہ حسن محبوب خدا ؑ کا حق تو ادا نہیں ہو سکتا کہیں ہم اپنی کمزور وضاحت کے پیش نظر کتاب زبان سے خارج نہ کر دئیے جائیں۔
ناجانے تخلیق دنیا و آدم ؑ سے کتنی دیر پہلے خدا اور محبوب خدا ایک دوسرے کو مقناطیسی نگاہوں سے دیکھتے رہے ہوں گے؟کبھی کبھی تو لگتا ہے خدا کے پیار کا جواب یہی ہے کہ یاد خدا کو کرواور زبان سے زکر محبوب خدا جاری ہو جائے یہ کہہ کر وہ ناجانے کس خیال کی وادیوں میں گم سے ہو گئے اور میں یہ سوچنے لگا کہ یہ خدااور محبوب خدا ؑ کے دوست بھی عجیب ہیں لذت کی شیرینی میں غم کی چاشنی ملا کر شربت دیدار میں اپنے اشک ملا دیتے ہیں جیسے پیتے ہی جسم میں لگی نفس کی آگ پناہ مانگنے لگتی ہے۔
وہ خدا رسول ؑاور تاریخ اسلام اس طرح پیش کرتے جیسے روبرو موجود ہوں یہ عبور دیکھ کر سننے والوں پرایسا منظر طاری ہوجاتا کہ ان کے چہرے کی روشنی آنکھوں کے زریعے دل کے اندھیروں میں پھیلتی جارہی تھی اور باتیں کانوں کے رستے شعور کی وادیوں میں علم و آگہی کے چراغ روشن کر رہی تھیں میں سوچ رہا تھا ضرور مجھ سے جانے انجانے میں کوئی ایسی نیکی ہوئی ہو گئی جس کی بدولت خدا نے مجھے اپنے دوست کی صحبت عطا کی ہے خدا کا بھی اپنے دوستوں کے ساتھ الگ ہی معاملہ ہوتا ہے زمین کی ضرورتیں چھین کر آسمان کی سہولتیں سونپ دیتا ہے وہ ایک ایسے عالم میں ٹہلتے ہیں جو الفاط کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا۔
نایاب پہلوؤں پر سخاوت سے بولتے تو لگتا جیسے کسی مفلس کو خزانے کا پتا بتا رہے ہیں دنیاوی دولت مندوں کے دستر خوان سے فقراء شرکائے طعام ہوکر بھی خالی معدوں کے ساتھ اُٹھ جاتے ہیں مگر میں ان کی بوسیدہ چٹائی پر بیٹھ کر آسمانی غذاؤں سے اپنی روح کا پیٹ بھر رہا تھا۔ قابل تعظیم ہستی جن کی ذات سے دینی احترام کاتصور وابستہ ہو جائے ان صاحبان کشف و کرامات کے روبرو باادب وسنجیدہ رہیں زبان روکیں اور دل تھام کے بیٹھیں میں اپنے کاسہ دل میں ان کی انمول باتوں کے موتی بھر کر ان کی جانب دیکھنے لگا تو میری آنکھوں سے تشکر کے آنسو بہنے لگے کسی نے آکر نذرانہ پیش کیا تو سامنے بیٹھے لوگوں میں تقسیم کرکے کہتے کثرت مال کی نحوست سے بچنے کے لیے فقیر اس طرح سخاوت کرتے ہیں کہ خود پر ذکوۃواجب نہیں ہونے دیتے یاد رکھو کہ جیسے بہتا پانی پاک ہوتا ہے ایسے ہی چلتا مال پاک ہوتا ہے جیسے ٹھہرا پانی ناپاک ہو جاتا ہے ایسے ہی جمع کرکے رکھا مال ناپاک ہو جاتا ہے درد، دروازہ دل پر خدا کی دستک ہیں وہ درد،دے کر دوا دیتا ہے تجھے جو درد، دے تو بھی اُسے دُعا دے یہی سنت خدا ہے۔
درویش بابا میں تنگی حالات کے شکنجے میں جکڑ جاتا ہوں تو زندگی وحالات کے پیدا کرنے والے رب سے شکوہ گو ہو جاتا ہوں میرا رب میرا یار بھی ہے میں اپنے یار سے تلخی حیات کی کراہٹ میں جتنی زہریلی گفتگو کر جاتا ہو ں اگر یہ مذہبی حلقو ں تک پہنچ جائے تو کٹھ ملاؤں کی بارگاہ سے باآسانی کفر کا فتویٰ صادر ہو جائے اسی لیے میں اپنے اور خدا کے بیچ میں ان کو آنے نہیں دیتا میری حیات ایمان میں میرے اور خدا کے درمیان محبوب خدا ؑ کی زات ہے جو مجھے مذہب کے نام پہ زمینی بہکاؤں سے بچائے رکھتی ہے محبوب خدا ؑ سے میرا محبت کا جذبہ سدا پختہ رہا ہے ہاں خدا کی یاری میں میں نے اُس کی زات کو متوجہ کرکے بہت ادبی و غیر ادبی شور مچایا ہے اُس کے بعد اُس کی خاموشی کو سنتا ہوں تو توبہ توبہ کے نعرے میرے وجود کے سناٹوں میں گونجنے لگتے ہیں میری یہ حالت میرے لیے بڑی حیرت ناک و پروسرار ہے جو مجھے گرفت مصیبت سے نکلتے ہی ندامت و پچھتاوے میں ڈال دیتی ہے میرے لیے خدا سے معافی و درگزر کی دعا فرمادیجئے۔
میں نے کہا بابا شافع محشر ؑ کی نہ سہی ان کے روضے کی ہی زیارت ہوجائے دن رات ان کی محبت میں بڑی تڑپ بے قراری بے چینی والی کیفیت جسم و روح پر طاری رہتی ہے۔بولے اس کیفیت پر سجدہ شکر ادا کرویہ کیفیت ہی مقدس محبت کی معتبردلیل ہے ایک بزرگ کے پاس اسی کیفیت میں مبتلا ایک صاحب آئے اور کہا کہ حضرت میرے لیے دعا کریں مجھے روضے کی زیارت ہو جائے بلاوا آ جائے اور اس حسرت کو بیان کرتے کرتے ہچکیوں سے زاروقطاررونے لگے۔اُس بزرگ نے محبت پہ مبنی اس کیفیت کو دیکھا تو کہنے لگے میں نے دو حج اور تین عمرے کیے ہیں وہ سب تم لے لو اور یہ کیفیت مجھے دے دو۔آپ کی محبوب سے منسوب محبت خواہش تکمیل میں قرار تو پا جاتی ہے مگر نہ ملنے میں بڑی ملاقاتیں پوشیدہ ہوتی ہیں تم کیا جانوں تمہارا روز یاد کرنا دربار محبت میں تمہاری محبت کی حاضری لگواتا ہے بے چینی وبے قراری و تڑپ پہ مبنی محبت محبوب کا دھیان کرواتی ہے یہ دھیان بڑی خوبصورت ملاقات ہے محبوب کو تم پہ پیار آئے اس سے بڑی کیا بات ہو سکتی ہے۔
Thanks for publish my article ❤️🙏