rki.news
بچوں کے لئے لکھنا اور ان کے لئے کام کرنا ہمیشہ سے میرا پسندیدہ رہا ہے ، یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، کیونکہ بچے کو ہم جس رنگ اور سمت میں ڈھالیں گے وہ اسی میں ڈھل جائے گا ، تربیت کا اثر ان پر سدا رہتا ہے ، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ماحول میں بس جائیں ، ابتدائی تعلیم کبھی نہیں بھولتی ، اور جب تربیت اچھی ہو تو وہ انسان کو اندھیرے میں روشنی دکھانے کا کام کرتی ہے اور اس کتاب کے ذریعے میں نے یہی کوشش کی ہے ، جو بھی اسے پڑھے وہ اس سے کچھ نہ کچھ اچھا ضرور سیکھے، جب میں نے یہ کتاب لکھی تو میرے سامنے وہ بچے تھے جنہیں ہم آج کے دور میں مختلف سمتوں میں بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ خواہش تھی کہ یہ کتاب ان بچوں کے لئے راہ نما ثابت ہو، اسی سوچ کے ساتھ اس کتاب کا نام ’’میں فلسطینی بچہ ہوں‘‘ رکھا۔یہ کتاب صرف فلسطین کے بچوں کے لئے ہی نہیں لکھی گئی, تمام بچوں کے لئے لکھی گئ ہے، ان کی دلچسپی، ان کی تربیت اور ان مسائل کے تناظر میں جن کا سامنا آج کی نسل نو کو ہے۔ ہم ایک ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں بچوں کو زبان، اقدار، رشتوں اور ذمہ داریوں سے آہستہ آہستہ دور کیا جا رہا ہے۔ انہیں اسکرینوں کی دنیا میں مصروف کر کے اصل زندگی سے کاٹ دیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں بچوں کے لئے ایسا ادب بہت ضروری ہے جو انہیں ڈانٹے بغیر سمجھائے اور نصیحت کئے بغیر دلچسپ اور آسان طریقے سے راستہ دکھائے۔ میں نے فلسطین کے بچوں کا نام اس لئے چنا کہ آج کے دور میں وہ دنیا کے سب سے باہمت، صابر اور غیور بچے ہیں۔ یہ کتاب دراصل ان کے نام ایک خراجِ تحسین ہے، ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی علامت ہے اور ان کی آواز بننے کی ایک کوشش بھی۔ مگر اس کا دائرہ صرف ایک خطے تک محدود نہیں، اس کا پیغام ہر بچے تک پہنچانا مقصود ہے ، تاکہ انھیں بہترین انسان بنایا جا سکے۔
اس کتاب کی نظموں میں بچوں کی دلچسپی کو سامنے رکھا گیا ہے۔ یہ نظمیں صرف پڑھنے کے لئے نہیں، بلکہ سمجھنے کے لئے ہیں۔ کہیں ایک نظم پتنگ کے ذریعے یہ احساس دلاتی ہے کہ خوشی کے نام پر دوسروں کو نقصان پہنچانا درست نہیں، کہیں پانی کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ پانی اللہ کی نعمت ہے اور اس کا ضیاع دراصل آنے والی نسلوں سے ناانصافی ہے۔ اسی طرح دیگر نظموں میں اللہ پاک کی نعمتوں کا ذکر، حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اظہار عقیدت ، پاکستان سے محبت ، بانئ پاکستان ، صفائی، کتاب، سکول ، شکرگزاری، ماحول، دین اسلام سے محبت ، اچھی خوراک کی اہمیت ،اردو زبان اور جانوروں کا احترام جیسے موضوعات شامل کئے گئے ہیں ،غرض بچوں کے لئے جن چیزوں یا تربیت کے لئے جو جو اصول و ضوابط ہونے چاہئے ، انھیں آسان اور دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ، تاکہ بچہ کھیل کھیل میں زندگی کے اصول سیکھ سکے۔
اس کتاب کی ایک خاص بات اس کی زبان ہے۔ آج ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے بچے انگریزی بولتے ہیں، مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بہت سے بچے اردو پڑھ اور سمجھ نہیں پاتے۔ حالانکہ اردو ہماری قومی زبان ہے، ہماری پہچان ہے اور اظہار کا ایک نہایت نرم اور باوقار ذریعہ ہے۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ اس کتاب میں اردو کے الفاظ اس طرح استعمال ہوں کہ بچے انہیں آسانی سے سمجھ سکیں۔ زبان کو بوجھ بنانے کے بجائے دلکش بنایا جائے، تاکہ بچوں کو یہ احساس ہو کہ اردو مشکل نہیں، بلکہ خوبصورت اور قابلِ فہم ہے۔
اس کتاب تک پہنچنے کا سفر آسان نہیں تھا, یہ تجربہ بھی کیا کہ جو کتابیں لوگ مفت لے لیتے ہیں، وہ اکثر پڑھتے نہیں۔ مفت کتابیں گھروں میں بس رکھی رہ جاتی ہیں، وقت کے ساتھ نظر انداز ہو جاتی ہیں اور ضائع ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے یہ فیصلہ کیا کہ یہ کتاب مفت نہیں دی جائے گی۔ اس فیصلے کا مقصد کتاب کی قدر کو زندہ رکھنا ہے۔ جس چیز کو خرید کر لیا جائے، اس کے ساتھ احساس بھی جڑا ہوتا ہے، اسے سنبھالا بھی جاتا ہے اور پڑھا بھی جاتا ہے۔ میری خواہش یہ ہے کہ جو لوگ یہ کتاب خریدیں، وہ اسے پڑھنے کے بعد آگے بھی پہنچائیں، کسی کتب خانے میں دے دیں، تاکہ وہ بچے جو کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بھی علم اور پیغام سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کتابیں تب ہی زندہ رہتی ہیں جب وہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک پہنچتیں ہیں۔اس کتاب کی اشاعت میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی نقصان بھی سہا، ذہنی تھکن بھی ہوئی اور لوگوں کا عدم تعاون بھی راہ کی دیوار بنا، مگر میں جانتی تھی کہ جب تک یہ کتاب شائع نہیں ہو گی ، مجھے چین نہیں ملے گا۔ اسی لئے اپنی مدد آپ کے تحت یہ کتاب شائع کی، کیونکہ بعض اوقات لکھنے والے کو اپنی تحریر کے لئے خود کھڑا ہونا پڑتا ہے، پبلشرز کی دھوکا دہی سے تنگ آکر مجھے کتاب کی اشاعت کے لئے اپنا ادارہ ” خانم مطبوعات ” کے نام سے بنانا پڑا۔میری دعا ہے کہ یہ کتاب جہاں بھی جائے، وہاں بچوں کے دلوں میں سوچ کا ایک چراغ جلائے اور ساتھ ہی فلسطین کے ان بچوں کی یاد بھی تازہ کرے جو آج بھی ظلم کے سائے میں جینے کے باوجود ہمت اور وقار کی مثال ہیں۔ یہ کتاب صرف نظموں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے، ایک احساس ہے اور ایک کوشش ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو بہتر انسان بنا سکیں۔ کاغذ بہت مہنگا ہونے کی وجہ سے محدود تعداد میں شائع کر پائی ہوں، لیکن ہر ممکن طریقے سے معیار کو بلند رکھا گیا ہے، آرزو ہے کہ یہ بار بار شائع ہو کر ہر کتب خانے اور بچے تک پہنچے ، مجھ سے براہ راست کتاب کے لئے 03314958639 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ، سلامت رہیں ۔
Leave a Reply