تحریر و تحقیق:اشعر عالم عماد
بشیر بدر نئی اردو غزل کے منفرد، تازہ بیان شاعر ہیں جنھوں نے غزل میں نئی لفظیات داخل کرتے ہوئے نئے حسّی پیکر تراشے اور نئے زمانے کے فرد کی نفسیات اور اس کے جذباتی تقاضوں کی ترجمانی کی۔ انھوں نے روائتی مضامین اور ترقی پسندی و جدیدیت کے نظریاتی حصار سے آزاد رہتے ہوئے عام آدمی کے روز مرّہ کے تجربات و مشاہدات کو خوبصورت شعری اظہار دے کر اردو داں طبقہ کے ساتھ ساتھ غیر اردو داں طبقہ سے بھی خراجِ تحسین حاصل کیا۔ غالب کے بعد غیر اردو داں طبقہ میں سب سے زیادہ معروف اور مقبول شاعر بشیر بدر ہی ہیں۔۔بشیر بدر کا اصل نام سید محمد بشیر ہے آپ 15 فروری 1935ء کو کانپور میں پیدا ہوئے۔جبکہ آپ کا آبائی وطن فیض آباد ضلع کا موضع بکیا ہے۔بشیر بدر کی غزل کا مجموعی آہنگ یکسر غیر روائتی ہے۔وہ محبوب کا حسن ہو یا دوسرے مظاہر کائنات ۔۔۔ ،بشیر بدر نے ان سب کا احساس و ادراک اک ایسے زاویہ سے کیا جو سابقہ اور ہمعصر شاعروں سے الگ ہے۔ بشیر بدر کی غزلوں میں اک نازک ڈرامائی کیفیت ملتی ہے ۔ان کے اشعار محض اک واردات نہیں بلکہ اک کہانی کا انکشاف کرتے ہیں جس پر استعارے یا علامت کی باریک نقاب پڑی ہوتی ہے۔۔ واقعاتی فضا رکھنے والے متحرّک پیکر بشیر بدر کی غزل کا خاصّہ ہیں۔بشیر بدر کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے غزل کے پیکر میں ایسے بیشمار الفاظ داخل کئے جن کو غزل نے ان سے پہلے شرف قبولیت نہیں بخشا تھا ۔اس معاملہ میں بشیر بدر کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انھوں نے بول چال کی ٹھیٹھ اردو کو اپنایا ۔بشیر بدر کی غزل میں لفظ و احساس کی سطح پر تازکی ، شگفتگی ،شعریت،اور حسن ہے جو ان کی غزل کو دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔بشیر بدر کو شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے ان کی غزل نیاز فحپوری کے رسالہ “نگار” میں چھپی جس پر ادبی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ 20 سال کی عمر کو پہنچے پہنچتے ان کی غزلیں ہندوستان اور پاکستان کے موقر رسالوں میں شائع ہونے لگی تھیں اور ادبی حلقوں میں ان کی شناخت بن گئی تھی۔ جامعہ علی گڑھ کے ادیب ماہر اور ادیب کامل امتحانات پاس کرنے کے بعد علی گڑہ یونیورسٹی سے بی اے ،ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔پی ایچ ڈی میں ان کے نگراں پروفیسر آل احمد سرور تھے اور مقالہ کا موضوع “آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ” تھا۔ 1986 میں انھوں نے بھوپال کی ڈاکٹر راحت سلطان سے شادی کر لی اور کچھ دنوں بعد وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اس میں شک نہیں کہ بشیر بدر نے اپنی غزلوں میں نئے دور کے نئے موضوعات ، مسائل ، افکار و تناظرات سے اپنی گہری حسّی ،وجدانی ،جذباتی اور اور فکری وابستگی کو اک انوکھا اور دلکش پیرایہ بیان دے کر اردو غزل میں اک نئے باب کا اضافہ کیا۔بشیر بدر نے عام جذبات کو عوامی زبان میں پُر فریب سادگی سے بیان کر دیے ہیں ان کے اشعار میں گاؤں اور قصبات کی سوندھی سوندھی مٹی کی مہک بھی ہے اور شہری زندگی کے تلخ حقائق کی سنگینی بھی۔بشیر بدر کی شاعری نے تغزّل کو نیا مفہوم عطا کیا ۔یہ تغزل روحانی اور جسمانی محبت کی ارضیت اور ماورائیت کا امتزاج ہے ۔ڈاکٹر بشیر بدر کو حکومت ہند نے پدم شری کے خطاب سے نوازا اور ان کو ساہتیہ اکیڈمی کے علاوہ مختلف ریاستی اردو اکیڈمیوں نے بھی ایوارڈ دیئے۔ بشیر بدر کے کلام کے چھ مجموعے اکائی،امیج،آمد،آس،آسمان اور آہٹ شائع ہو چکے ہیں۔ ہم حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کے جسطرح دیگر ہندوستانیوں کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغہ دیا جاتا رہا ہے بشیر بدر صاحب کو بھی ان کی علمی خدمات کے صلے میں کسی نا کسی ایوارڈ سے نوازا جائے ۔
Leave a Reply