rki.newss
یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ ہر آنے والی نسل پہلی کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہوتی ہے۔جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا جارہا ہےانسانی دماغ پہلے سے زیادہ باشعور اور فہم شناس ہوتا جارہا ہےاور انسان آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ہر آنے والی نسل پہلے سے زیادہ خود اعتماد اور مزید قابلیت کی جانب گامزن ہورہی ہے۔
بس اصل کام اچھی تعلیم ،تربیت اور درست راستے پر گامزن کرنا ہےاور یہ پرانی نسل کی اولین زمے داریوں میں شامل ہے
اس طرح ہم نئے آنے والے زمانے کو ایک بھر پور نئی جنریشن دے سکیں گے جو بعد میں ہمارا نام روشن کر سکتی ہے۔
ایک اچھے تعلیمی نظام سے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں اور اچھی گھریلو تربیت انسانی شخصیت کو نکھار سکتی ہے۔اور اس مقصد کے لئے معاشرے کی خواتین کو بہترین تعلیم سے روشناس کروانا ضروری ہےتاکہ وہ نئی نسل کی تربیت اعلی اقدار پر کر سکیں۔
ہمارے عہد کے بچے ذہین، باشعور اور مثبت سوچ کے حامل ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ گھروں میں مثبت سوچ کو پروان چڑھایا جائے۔۔
عمومی طور پر لوگ نئی نسل کے بارے میں شکایت تو کرتے ہیں یہ مشکلات سہنے کی زیادہ ہمت نہیں رکھتے
اور مثبت خوبیوں سے عاری ہیں لیکن محققین کے مطابق ایسا نہیں ہےبلکہ تحقیق یہ دکھاتی ہے کہ ہم ان کی زات کو اپنے ماضی کی نگاہ سے دیکھنا چاہتے ہیں اور موازنہ کرتے ہیں کہ آج کل کے بچوں میں وہ پرانی خوبیاں نہیں۔یہ تصور ہمیشہ موجود رہا ہے لیکن یہ زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہے۔
زیادہ ذمے داری پرانی نسل پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اور ان کے درمیان جنریشن گیپ نہ آنے دیں یا کم سے کم رکھیں۔۔۔کوشش کریں کہ ان کی عمدہ تربیت کریں تاکہ آنے والے وقت میں وہ بہتر انداز میں اپنی ذمے داریاں پوری کر سکیں اور معاشرے کے مفید افراد ثابت ہوں۔
انسانیت کا جذبہ بیدار کرنا، آگہی ،عرفان اور بصیرت جیسی خوبیوں سے روشناس کروایا جائے، یہی خصوصیات ایک بہتر انسان بننے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
اپنے ادب اور کلچر سے روشناس رکھا جائے۔معاشرتی اقدار کے ساتھ اخلاقی اقدار سکھانا بھی ضروری ہیں تاکہ آنے والا زمانہ ایک بہترین نئی نسل سے روشناس ہو۔۔
بقول اقبال۔۔۔”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔”
ثمرین ندیم ثمر
دوحہ قطر
Leave a Reply