عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان صرف معدنیات سے مالا مال ایک خطہ نہیں ہے ،بلکہ اس خطے میں بسنے والے لوگ بھی بہترین صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ ایک ایسے خطے میں رہتے ہوئے جس پر سب سے کم توجہ دی گئی ہے، یہاں کے شہریوں نے ہر فیلڈ میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ کم توجہی کا گلہ کرنے کے بجائے یہاں کے ہر فرد نے اپنی بھرپور صلاحیت سے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی ہے۔ جس کا اعتراف صرف صوبائی یا قومی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی کیا گیا ہے۔ اس میں اپنے بل بوتے پر بہت سی شخصیات اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں، مگر بہت سارے ایسے بھی ہیں جو وسائل کی کمی اورحکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کمال فن کے ہوتے ہوئے بھی دنیائے آسمان پر اس طرح اپنی چمک نہ دکھا سکے۔ بلوچستان کے یہ ستارے فن کی ترویج کے لئے قائم اداروں کی بے توجہی کا شکار ہوئے ہیں۔ اسی بے توجہی کی وجہ سے یہ ستارے اپنی آب و تاب دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔
فنکار کے فن کو دنیا بھر میں اجاگر کرنا ہی ان حکومتی تنظیموں کا کام ہے، جس کے لئے وہ سرکار سے وظیفہ وصول کرتے ہیں۔ ایسے کئی ستارے دنیائے آسمان پر اب بھی چمکنے کو تیار ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ حکومت نیک نیتی سے ان پر توجہ دے، تاکہ یہ ستارے بلوچستان اور پاکستان کا نام دنیا بھر میں مشہور کر سکیں۔
ان ہی چمکتے ستاروں میں ایک ستارہ کا نام عبدالعزیز جمالی ہے۔ فن خطاطی ہمیشہ سے اسلامی ورثہ رہا ہے، جس میں بڑے بڑے باکمال استاد اپنی جگہ بنا کر شہرت کے دوام پر جگمگا رہے ہیں۔ جمالی صاحب بھی اس فن کے ماہر استاد ہیں۔ اپنی سی کوشش میں وہ ایک کامیاب نام ضرور ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان کے کام کو سراہتے ہوئے ان کی نا صرف پذیرائی کرے، بلکہ ان کے کام کی مختلف گیلریز میں نمائش کا اہتمام کر کے اس ستارے کے عالمی افق پر چمکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
عبدالعزیز جمالی 27 جولائی 1967 کو بارش کے دن میں ، مہکتی فصلوں سے لہلہاتے کھیتوں، گنگناتی فضاؤں کے مسحور کن نغموں میں اس جہان میں تشریف لائے۔ ان کے آبائی گاؤں گوٹھ گنہور خان جمالی میں ان کے نانا نے ان کو گود میں لیتے ہوئے بارش کی مناسبت سے ان کو یہ کہہ کر کہ یہ تو میرا حورو ہے ان کے بچپن کا نام حورو سے اس دنیا کو ان سے متعارف کروایا۔ حورو کا مطلب ہے بارش میں جنم لینے والا۔ گاؤں کے سب افراد بچپن میں ان کو اسی نام حورو کے نام سے ہی پکارتے رہے۔ آج اس گاؤں کا نام صرف کتابوں میں رہ گیا ہے، کیونکہ پٹ فیڈر کینال کے قریب اوچ پاور پلانٹ بننے کے بعد اس گاؤں کا نام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکا ہے ۔
ابتدائی تعلیم کا آغاز ماں کی گود کیساتھ ساتھ گھر میں ہوتی محافل میں عظیم بزرگوں سے سیکھنے کے مواقع سے ہوا۔ ان شخصیات میں حضرت علامہ مولوی شاہ محمد جمالی رحمۃ اللہ علیہ علم و عمل کے پیکر تھے۔ حضرت پیر مٹھا رحمت پوری اور حضرت غلام صدیق غفاری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت نے اُن کی زندگی کو خدمت و اخلاص کی راہوں پر استوار کیا۔ ان کے سائے تلے قرآن و حدیث، عربی و فارسی اور فنونِ لطیفہ کی ابتدائی تعلیم پائی۔
اسکول جانے کی عمر تک پہنچے تو اسکول گاؤں سے 7 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ روزانہ چلچلاتی دوپہر میں اسکول آنے اور جانے کی مشقت علم سے محبت میں خندہ پیشانی سے انجام دی۔ اسکول میں اساتذہ کی شفقت نے سب مشکلیں آسان کر دیں۔ استاد عبدالمجید کھوسہ اور ہیڈ ماسٹر سید عبداللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگ آج بھی جمالی صاحب کی یادوں کے چراغ ہیں۔
فنون لطیفہ سے دوستی تو چھ سات برس کی عمر سے اس وقت ہو چکی تھی جب والد گرامی کی نگرانی میں درگاہ مسکین پور شریف کی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ تو اُس پر خطاطی اور نقاشی کا کام ان کی معصوم انگلیوں کو بھی نصیب ہوا۔ یہ ان کی زندگی کی پہلی فنی عبادت تھی۔ جس کے بعد یہ شوق مزید جلا پاتا چلا گیا۔ پوسٹرز بنانے ہوں یا یونیورسٹی کے فن پاروں میں رنگ بھرنے ہوں وہ روشنی کے اس سفر میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر سلیم کرد کی حوصلہ افزائی نے نئی منزلوں سے آشنا کیا۔ محکمہ تعلیم میں 1987 میں بطور ڈرائنگ ماسٹر تعیناتی ہوئی۔ بعد ازاں کوئٹہ میں تدریسی تربیت کے دوران خط، ڈیزائن، پینٹنگ اور کلے ماڈلنگ جیسے شعبوں میں مہارت حاصل کی۔
خطاطی میں ابتدا میں کسی کی تقلید کو قبول نہ کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آغاز میں انکا قلم قواعد کی منزلوں تک نہ پہنچ سکا۔ پھر ڈیرہ اللہ یار کے آرٹسٹ علاؤالدین قادری صاحب نے ان سے کہا کہ “بیٹا! اچھوں کی نقل کرنا بھی اچھا ہے، یہ جملہ ان کی آنکھیں کھول گیا۔ انہوں نے بڑے خطاطوں کے نمونے دیکھ کر مشق شروع کی۔ ایک روز ایک دھندلا فوٹو کاپی شدہ خط دل کو ایسا بھا گیا کہ انہوں نے دن رات اُسی کو نقل کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب انہوں نے وہی نمونہ فیس بک پر ڈالا تو ایک تبصرہ آیا کہ “یہ خط میرا ہے، اور تم نے ہو بہو لکھا ہے۔” ساتھ ہی اصل تصویر بھی بھیجی گئی۔ یہ لمحہ ان کی زندگی کا روشن موڑ تھا۔ یہ عظیم استاد پاکستان کے نامور خطاط، استاد مہر اللہ نصر دامت برکاتہم تھے۔ تب سے ان کی زندگی کا عزم یہی ہے کہ اُن کے قلم کے نشانات پر چلتے رہیں ، جیسے شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کہا تھا “چلتے رہو، بیٹھنے کا وقت نہیں ہے ، اگر اندھیرا ہو جائے تو محبوب کے قدموں کا نشان نہ پا سکو گے۔”
آج اپنے گاؤں گوٹھ مولوی شاہ محمد جمالی (یونین کونسل جھڈیر شمالی، ڈیرہ مراد جمالی) میں مقیم ہیں۔ محکمہ تعلیم میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر اصل دولت وہ عشق و اخلاص ہے جو فنونِ لطیفہ اور خطاطی کے ذریعے والدین سے ورثے میں ملا ہے۔ بارشوں میں جنم لینے والا ایک ننھا سا بچہ، جو فنونِ لطیفہ میں باکمال ہوا۔ آج بھی اپنے استاد کے نقش قدم پر چلنے کو سعادت سمجھتا ہے۔
حکومتی اداروں سے التماس ہے کہ اس ستارے کے مزید چمکنے میں اپنا کردار ادا کریں، اور ان جیسے ہر ستارے کے لئے بھرپور تعاؤن سے عالمی افق تک رسائی آسان بنائیں۔
Leave a Reply