صنف : شاعری، مجموعۂ غزل
شاعر : جنید عالم آروی
سن اشاعت: 2020
صفحات: 210
قیمت: 250
پبلیشر: ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی، دربھنگہ ٹائمز پبلیکیشنز
مبصر : امان ذخیروی
شہر آرا کے میر کہے جانے والے محمد اسمٰعیل آسی آروی کے فرزند اکبر، شہر دربھنگہ میں مقیم جنید عالم آروی کا شمار بہار کے رومانی شاعروں میں ہوتا ہے۔ شاعری تو در حقیقت ودیعت الہی ہے، جو ہر کس و ناکس کو عطا نہیں ہوتی۔ مگر اس بات سے بھی انکار محال ہے کہ کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں، جنہیں یہ نعمت عظمیٰ ورثے میں بھی ملی ہے۔ شاعر رومان جناب جنید عالم آروی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں شعر و سخن کی دولت دونوں ذرائع سے حاصل ہوئی ہے۔ اردو زبان و ادب سے ایم اے کرنے کے بعد تجارت کا پیشہ اختیار کرنے کے باوجود بھی انہوں اردو کا دامن نہیں چھوڑا اور فکر سخن سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے گھر کا ماحول ادبی رہا۔ ان کے والد گرامی ایک معتبر شاعر تھے۔ شبنم خستہ حال کے عنوان سے ان کا شعری مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ہے، جس کے مرتب خود جنید عالم آروی ہی ہیں۔ دوسری اور خاص وجہ یہ ہے کہ شاعری ان کو خدا کی ودیعت ہے، جو سازگار ماحول میں پل کر ثمر بار ہو گئی۔ اور تیسری وجہ بھی بہت خاص ہے جس کی اہمیّت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہے شہر دربھنگہ کا علمی و ادبی ماحول۔ اس شہر نے اردو زبان و ادب کو ایک سے بڑھ کر ایک لعل و گہر سے نوازا، جن کے رشحات قلم نے اردو کو ایسی ایسی نگارشات عطا کیں کہ ان کی روشنی سے آسمان ادب روشن و منور ہو گیا۔ یہ انہیں کاملین فکر و فن کی خدمات کا نتیجہ ہے کہ شہر دربھنگہ کو ایک دبستان کی حیثیت ملی۔ ان میں پروفیسر اویس احمد دوراں، پروفیسر عبد المنان طرزی مظہر امام، منظر امام، پروفیسر امام اعظم، رہبر چندن پٹوی وغیرہم کے نام بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ فی زمانہ بھی اس شہر میں گیسوئے اردو کو سنوارنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے، جو شب و روز اپنے قلم کی جوت جگا رہے ہیں۔ ان قلمکاروں میں ڈاکٹر عطا عابدی، پروفیسر عبد الودود قاسمی، ڈاکٹر منصور خوشتر ، منور راہی، ڈاکٹر احسان عالم وغیرہم کے نام کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جنید عالم آروی اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی کے طور پر نظر آتے ہیں۔
جنید عالم آروی کی شاعری سہل ممتنع سادہ و سلیس زبان میں مرقوم، فراق ہجر سے مملو، پاکیزہ عشق سے عبارت ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی تردد نہیں کہ اگر ان کے والد جناب آسی آروی شہر آرا کے میر تھے تو جنید عالم آروی بھی شہر دربھنگہ کے میر ہیں۔ یوں تو ان کی شاعری میں دیگر موضوعات پر بھی گفتگو کی گئی ہے، لیکن جو موضوع سب سے نمایاں ہے اور جو انہیں اوروں سے منفرد کرتی ہے’ وہ داستان عشق ہے۔ یہ بات ان کے مجموعۂ کلام کے عنوان سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے اس مجموعے کا عنوان ” آؤ عشق کریں” رکھا ہے، جو ان کی شاعری کے مزاج کے مناسب ہے۔
کبھی ناخدائے سخن میر تقی میر کے والد میر متقی نے ان سے کہا تھا “بیٹا عشق اختیار کرو” اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میر نے عشق اختیار کیا اور اسے اعتبار بھی عطا کیا۔ میر اپنی ایک معروف مثنوی معاملات عشق میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو کہیں ہے عشق
عشق ہی تازہ کار تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال
(دریائے عشق)
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
(شعلہء شوق)
اکیسویں صدی میں جنید عالم آروی نے اس قول کا اعادہ کیا اور اس سبق کو پھر سے دہرانے کی ترغیب دیتے ہوئے “آؤ عشق کریں” کا نعرہ بلند کیا ہے۔ ظاہر ہے ایسی تجویز وہی پیش کر سکتا ہے جو خود اس کا خوگر ہو۔ کہتے ہیں عشق مجازی کا سفر منزل عشق حقیقی پر تمام ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میر تقی میر کی عاشقی کے سفر نے ایک اپنے شہر کی عزیز پری بے مثال کے عشق کے راستے عشق حقیقی تک رسائی پائی ۔ لیکن جنید عالم آروی کے عشق کا معیار بہت بلند ہے۔ ان کا عشق کوئی تخیلاتی نہیں بلکہ ایک مقدس اور پاکیزہ عشق ہے۔ ان کے عشق کا محور کوئی اور نہیں بلکہ خود ان کی شریک حیات رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی محبوب بیگم کو ان کی زندگی میں بھی ٹوٹ کر چاہا اور ان کے وصال کے بعد بھی انہیں کی پرستش میں منہمک ہیں۔ شاید اسی عشق کے راستے ان کے عشق حقیقی کا سفر طے ہوگا۔
آؤ عشق کریں جنید عالم آروی کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جس کا انتساب انہوں نے اپنی محبوب بیگم مرحومہ کے نام کیا ہے، جو ان کی سچی محبت کی مثال ہے۔ ان کے اس جذبے کا اظہار انتساب کے صفحے پر چسپاں شعر سے بھی ہو جاتا ہے۔ شعر حاضر کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
زباں خموش تھی پر آنسوؤں نے لب کھولے
سفر میں تجھ سے بچھڑنے کی جب گھڑی آئی
کیسا سچا شعر ہے۔ لازوال عشق کی ترجمانی ایسا ہی لازوال شعر کر سکتا ہے۔ مدتوں ساتھ رہنے والا، ہر دکھ درد کے ساتھی کی جدائی کی بیحد مؤثر تصویر کشی شاعر نے اس شعر میں کی ہے۔ اس درد کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں، جن کا محبوب دوران سفر ان سے جدا ہوا ہو۔
شاعر کو اپنے محبوب کے بچھڑ جانے کا غم اسے ہر پل بے چین رکھتا ہے۔ وہ اس کی یادوں سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ وہ اس کی یاد میں ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ مگر اس کی یادوں سے رستگاری نہیں ملتی۔ وہ اپنے محبوب سے کچھ یوں نالہ کناں ہے۔۔۔۔۔۔
اپنی یادوں میں شب و روز بکھرنے کے لیے
کیوں مجھے چھوڑ گیا ہے یوں ہی مرنے کے لیے
پھر خود ہی اپنے حال زار سے اپنے محبوب کو آگاہ کرتا ہوا کچھ ایسا کہہ گزرتا ہے
مجھ کو ترتیب دے نہ پاؤ گے
ٹوٹ کر یوں بکھر گیا ہوں میں
شاعر اب دنیا سے بیحد بیزار نظر آتا ہے۔ محبوب کا غم فراق اسے جینے نہیں دیتا۔ وہ ہر وقت اس کی یاد میں غلطاں و پیچاں رہتا ہے، اس کی قربت کی تمنا کرتا ہے۔ اسی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس ہر راہ پر اسے تلاشنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن کسی راستے پر اپنے محبوب کا نقش قدم نہیں پاتا۔ بالآخر وہ جس نتیجے پر پہنچتا ہے، اس کا اظہار اپنے ایک شعر میں یوں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب رستوں کو دیکھ کے ایسا لگتا ہے
تیرے گھر کا رستہ سیدھا لگتا ہے
عشق میں فنا ہو جانا ہی عشق کی معراج ہے۔ شاعر کو معلوم ہے کہ اس کے محبوب کے گھر پر فنا کی راہ پر چل کر ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سے ملنے کی ایسی تڑپ ہے کہ وہی رستہ اسے سیدھا دکھائی دیتا ہے۔ محبوب کی فرقت کسے بے چین نہیں کرتی؟
راقم الحروف کے ایک شعر سے اس کی وضاحت ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔
جہاں میں ایک پل جینا بہت دشوار لگتا ہے
کسی کا عشق کھو جائے تو سب بے کار لگتا ہے
کچھ یہی کیفیت شاعر رومان، شہر دربھنگہ کے میر جنید عالم آروی کے دل کی ہے۔ اسے دنیا کی ہر دولت حاصل ہے، لیکن محبت کی دولت کی محرومی نے اس کی ہر خوشی معدوم کر ڈالی ہے اور وہ کچھ ایسا کہنے پر مجبور ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج زمین چاند ستاروں کو پا لیا
بیکار سب ہیں، پاس مرے تو اگر نہیں
شاعر کا دل اب ایک ویران کھنڈر بن کر رہ گیا ہے۔ یہ اداسی، بے چینی اور بے کلی اسے کہیں اور کسی پل چین لینے نہیں دیتی۔ وہ گھر جو کبھی فردوس بریں تھا اب ویران نظر آتا ہے۔ دن بھر خود کو اس کی یادوں میں مصروف رکھتا ہے، لیکن تنہائی کی وحشت رات میں اسے اژدہا بن کر ڈستی ہے۔ انہیں خیالات کی وضاحت شاعر نے مندرجہ ذیل شعر میں کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تو یادوں میں گزر جاتا ہے جیسے تیسے
کتنا ویران یہ ہو جاتا ہے گھر شام کے بعد
زندگی کی ہر خوشی معدوم ہو گئی، مال و دولت سے بے رغبتی ہو گئی، گھر وحشتوں کا آماجگاہ بن گیا۔ ایسے میں ایک آخری منزل فطرت کی گود بچ جاتی ہے جہاں کچھ پل سکون میسر آ سکے۔ قدرت کے حسین مناظر سے شاعر اپنے غمگین دل کو بہلا سکے۔ معشوق صفت کلیوں سے دل بہلانے کی خاطر جب شاعر سیر چمن کو نکلتا ہے، کلیوں سے ہم کلام ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہاں بھی وہی محبوب کلی کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ اس حال زار کو دیکھ کر بے ساختہ اس کی زبان سے یہ شعر ادا ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کلی مجھ کو دیکھ شرمائی
جانے کیوں مجھ۔ کو تیری یاد آئی
غرض کہ “آؤ عشق کریں” ایک ایسی کتاب عشق ہے، جس کا ہر شعر تغزل سے لبریز ، عشق کی چاشنی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو ہمیں محبت کا سلیقہ سکھاتی ہے، ہمارے دلوں میں جذبۂ عشق بیدار کرتی ہے۔ شاعر نے غزلوں میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔
یوں تو ویسے ہی صاحب کتاب رومان پرور رہے ہیں۔ ان کے شعروں میں عشق لہو کی صورت دوڑتا ہے۔ لیکن محبوب کی فرقت نے ان کی شاعری کا رخ موڑ دیا۔ جہاں پہلے ان کی شاعری میں وصل کی خوشی رقص کرتی تھی، وہیں غم فرق کا ماتم سنائی دیتا ہے۔ انہوں نے خود اس تبدیلی کا اعتراف اپنے اس شعر میں کیا ہے۔۔۔۔۔۔
نہ دل فگار تھا جب کہہ سکا نہ اک مصرع
جگر پہ چوٹ جو کھائی تو شاعری آئی
میرا مشورہ ہے کہ اگر کوئی عاشق صادق اپنے محبوب کو بے مثال تحفہ دینا چاہے تو اس کے قدموں تلے دو زانو ہو کر اسے یہ کتاب پیش کرے۔ اس لازوال کتاب کی طرح اس کی محبت بھی لازوال ہو جائے گی۔
210 صفحات پر مشتمل یہ کتاب “آؤ عشق کریں” اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ جناب جنید عالم آروی کو عمیق دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
امان ذخیروی
Leave a Reply