تازہ ترین / Latest
  Thursday, January 30th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ناولٹ “ناکام اداکار”

Articles , Snippets , / Wednesday, January 29th, 2025

تحریر :اشعر عالم عماد

وہ جیسے ہی ریل کے ڈبے میں سوار ہوا سب کی نظریں اس پر جم گئیں ، کچھ لوگ اسے دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی کرنے لگے ۔۔۔
کوئی اسے دیکھ کے حیران ہوا تو کوئی خوشی سے مسکرانے لگا اُس نے وہاں موجود لوگوں کو نظر انداز کیا اور اپنے بیٹھنے کی جگہ دیکھنے کے لیئے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر کوئی جگہ خالی نا تھی وہ ڈبہ بدلنے کے لیئے وہاں سے باہر جانا چاہتا تھا مگر ریل اپنی پوری رفتار سے دوڑ چکی تھی ۔۔
اب اگلے اسٹیشن تک کا سفر اسے کھڑے ہو کر ہی کرنا تھا ۔۔
وہ ایک کونے میں کھڑا ہوگیا ۔۔ لوگوں کی نظریں اب بھی اسی پر جمی ہوئیں تھیں
“تم نے پہچانا اسے ” ایک آدمی نے دھیمی سی آواز میں اپنے برابر والے آدمی سے کہا
جانتا ہوں اسے یہ فلم اور ٹی وی اداکار ہے روی کمار ہے ۔۔۔ ایک ناکام ادکار ۔۔۔
اس نے طنزیہ مسکراہٹ سے
سرگوشی میں کہا
روی کمار ۔۔ روی کمار ۔۔۔ اس کی سرگوشی میں کہی بات روی کمار سمیت کتنے کانوں سے ہوتی ہوئی کتنے ہی سرگوش لبوں تک جاپہنچی تھی اب ڈبے میں موجود ہر شخص اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
یہ فلم اور ٹی وی کا اداکار ۔۔ روی کمار تھا ۔۔۔
ایک شخص نے قدر شناسی کی اور کھڑے ہوکر اپنی جگہ اسے بیٹھنے کی پیشکش کی ۔مگر روی کمار نے خندہ پیشانی سے اس کا شکریہ ادا کیا اور بدستور اپنی جگہ پر کھڑا رہا ۔۔
روی کمار ان بدقسمت اداکاروں میں سے تھا جو خود بہترین اداکار ہونے کے باوجود فلم انڈسٹری کو کوئی کامیاب فلم دینے میں کامیاب نا ہونے سکا تھا ہر فلم میں اس ادکاری لاجواب ہوتی مگر یہ اس کی بدقسمتی تھی کے اس کی ہر فلم برُی طرح ناکام ثابت ہوتی ۔۔ روی کمار نے فلم سے مایوسی کے بعد ٹیلی ویژن کا رخ کیا اور ڈراموں میں قسمت آزمانے جا پہنچا مگر یہاں بھی اس کے ساتھ جڑی ناکامی کی ناہوست ساتھ رہی اور اس کا کوئی ڈرامہ بھی کامیاب نا ہوسکا ۔۔
اس پر ناکامی کی ایسی چھاپ لگ چکی تھی کے کوئی پروڈیوسر ، ڈائیریکٹر اسے اپنی فلم یا ڈرامے میں کوئی کردار دینے کو تیار نا تھا کیونکہ اس کی شخصیت اب ناکامی کی ضمانت سمجھی جانے لگی تھی وہ رفتہ رفتہ ذہنی الجھن کے ساتھ مالی بحران کا شکار ہوتا چلا گیا اس کے ساتھی اداکار دوست احباب بھی اب اس سے دور بھاگنے لگے تھے ۔۔ اس کی بیوی طلاق کے مطالبہ کے ساتھ اپنے گھر بیٹھ گئی تھی
“کسی ادکار کو کامیاب بنانے میں مضبوط کہانی کا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔۔ روی کمار خود تو بہترین اداکار ہے ۔۔۔ مگر اس نے کامیابی کے لیئے اچھی کہانیوں کا انتخاب نہیں کیا اسی لیئے ناکام ہوا۔ ایک آدمی نے دوسرے سے کہا ۔۔
یہ بات سن کر سن کے روی کمار کو حوصلہ ہوا ۔۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا
ادکار اچھا ہو تو کہانی کیسی بھی ہو وہ اپنی اداکاری سے اس میں اپنی جان ڈال دیتا ہے ۔۔ اب چارلی چیپلن اور مسٹر بین کو دیکھو وہ کوئی لفظ بولے بغیر بھی کتنے چوٹی کے ادکار ہیں ۔۔۔ دوسرے آدمی نے کہا
“اچھا تو تمھارے نزدیک اچھا ادکار کون ہے ”
وہ آدمی بولا ۔۔۔
“جو بغیر اسکرپٹ اپنی اداکاری سے لوگوں کو ہنسا دے یا رولا دے ۔۔۔ اس آدمی نے کہا ۔۔
روی کمار ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا
اتنے میں وہی آدمی جو اس کے احترام میں کھڑا ہوا تھا ،
اپنی نشت سے اٹھا اور اس کے پاس آگیا اس کے ہاتھ میں ایک اخبار تھا ۔۔
سر میرا نام ابھجیت ہے میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں ۔۔ اس نے کہا ۔
بہت شکریہ ۔۔۔ آپ کھڑے کیوں ہوگئے وہیں تشریف رکھیں ۔۔۔ روی بے اعتنائی سے بولا ۔۔۔ یہ دیکھیں اخبار میں آپ کا انٹرویو چھپا ہے ۔۔ اس نے اخبار روی کی بڑھاتے ہوئے کہا۔۔
ہاں یہ میرا آخری انٹرویو ہے ۔۔۔ روی نے اخبار پر نظر ڈالے بغیر کہا ۔۔۔
آخری ۔۔ ہے ۔۔۔ مطلب سر ۔۔ وہ حیرت سے بولا
آخری کہا ہے اسی لیے اس اخبار نے اسے جگہ دی ورنہ اسے کوئی نہیں چھاپتا ۔۔
اور دیکھو تو چھپا بھی شام کے اوسط درجہ کے اخبار میں ہے ۔۔ روی کمار نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا
آخری انٹرویو ۔۔کیسا ۔۔۔
آپ نے تو اس انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ
آپ بہت بڑی پرفارمنس دینے والے ہیں ۔۔۔
وہ بولا ۔۔۔
تم کوئی صحافی ہو ؟ روی کمار نے آنکھیں قدرے باہر نکالتے ہوئے بولا۔۔
فل حال تو نہیں ۔۔۔ مگر مسقبل میں ممبی جاکر اس شعبہ میں اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہوں ۔۔۔ وہ مسکرا کے بولا۔۔
روی کمار نے اس کی طرف دیکھا اور جیب سے سگریٹ نکال کر سلگھانے لگا ۔۔۔
کیا کوئی بہت بڑے اسٹیج پروگرام کا ارادہ ہے آپ کا ۔۔ وہ پھر بولا ۔۔۔
آپ اپنی جگہ پر تشریف رکھیے میں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔ ۔
روی سرد لہجے میں بولا
جواب پا کر وہ شخص سر کو ناراضی سے جھٹک کر اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گیا ۔۔
روی نے کچھ دیر لمبے لمبے کش بھرے اس دوران اس کی نظر ابھیجیت پر جمی رہیں جو سخت ناراضی کی وجہ سے اسے دیکھنا بھی گورا نہیں کر رہا تھا ۔۔
روی نے ایک نظر اپنی جلتی سگریٹ کو دیکھا جسے ختم ہونے میں ابھی کافی وقت درکار تھا۔۔
اس نے جلتی سگریٹ اپنی انگلی سے دبا کر بجھائی اور کھڑکی سے باہر اچھال دی ۔۔
پھر اس نے اپنے بیگ سے ایک چادر نکالی
اور بیگ کو سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔۔
تمھاری فیس بک فرینڈ لسٹ میں کتنے فرینڈ ایڈ ہیں ۔۔۔ روی نے ابھیجیت سے ایک دم سوال کر ڈالا ۔۔۔
یہی کوئی ١۵٠٠ سے ٢٠٠٠ جس میں سے کم سے کم ہزار سالے تو ہر وقت ایکٹیو رہتے ہیں ۔۔۔ ابھیجیت نے ناراضی بھلاتے ہوئے فوراً ہی جواب دیا ۔۔۔
ٹھیک ہے چلے گا ۔۔۔ کیا تم مجھے اس وقت فیس بک پر لائیو لے سکتے ہو ۔۔۔
روی کمار نے ابھجیت سے کہا ۔۔
اس کا مطلب ہے سر آپ کوئی پرفارمنس دکھانے والے ہیں ۔۔۔
وہ جیب سے موبائل نکال کر خوشی سے بولا ۔۔۔
ہاں ابھیجیت ایسا ہی ہے ۔۔۔ کیا کوئی اور بھی ۔۔۔ لائیو کرسکتا ہے ۔۔۔ وہ مسکرا کے بولا ۔۔ کئی ہاتھ فضا میں بلند ہوئے ۔۔
گڈ ویری گڈ ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ہم کم سے کم پانچ ہزار لوگوں تک اپنی پرفارمنس دیکھ سکیں گے ۔۔۔ تو آپ لوگ تیار ہیں ۔۔۔
یاد رکھیں جب تک میں نا بولوں کوئی بیچ میں کوئی نہیں بولے گا ۔۔ یعنی ایک ہی ٹیک میں پورا سین پکچرائزڈ ہوگا ۔۔
وہ پرجوش انداز میں بولا۔ ۔.
روی کمار نے جیب سے اپنا موبائل نکالا اور اکڑوں بیٹھ کر خاموشی اسے عجیب نظروں سے تکنے لگا ۔۔۔
چند لمحہ بعد اس نے اپنا سر کھجایا اور ساتھ ہی اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔۔۔ وہ مسکراہٹ پھر دھیمی سی آواز کی ہنسی میں تبدیل ہوگئی سب کو یوں لگا جیسے وہ موبائل پر کوئی مذاحیہ کلپ دیکھ رہا ہو وہ کبھی پاگلوں کی طرح اپنی ران پر ہاتھ مار کے ہنستا کبھی سنجیدہ ہوجاتا ۔۔
اچانک وہ ایک پھندہ لگنے کی آواز کے ساتھ بہت زور سے قہقہ مار کر ہنسا ۔۔۔ ای ای ای ای ی ی ۔۔ اوووو اووو ہاہاہا ۔۔۔
وہ کبھی اپنے گھٹنے پر ہاتھ مار کے ہنستا تو کبھی نیچے زمین پر ۔۔۔ اب اس کی ہنسی دوسرے لوگوں تک منتقل ہونے لگی ۔۔۔ اس کے برعکس وہ موبائل میں کیا دیکھ رہا ہے لوگ بھی ہنسنے لگے ۔۔
تھوڑی دیر میں اس کا قہقہ اس ڈبے سے نکل کر ٹرین کے دوسرے ڈبوں میں منتقل ہوگیا ۔
شاید اسے جو لائیو دیکھ رہے تھے وہ بھی ہنسنے لگے ہوں ۔۔
پانچ منٹ میں پوری ٹرین مختلف قہقہوں سے گونجنے لگی ۔۔۔
اچانک وہ برُی طرح چینخ مار کے کھڑا ہوگیا ۔۔ اس نے پاگلوں کی طرح سامنے پڑے بیگ کے اندر کچھ ٹٹولنا شروع کردیا ۔۔۔ اور مطلوبہ چیز نا ملنے پر دانتوں غصہ سے بھینچتے ہوئے اپنا بیگ اٹھا کر بند دروازے پر دے مارا۔۔۔ بیگ میں سے بہت سے صفحات سے نکل کر باہر آگئے ۔۔۔
ابھیجیت اس اچانک بدلتی صورتحال کو سمجھ نہیں پایا کے وہ اسے لاِئیو لے یا کیمرہ بند کردے ۔۔۔باقی لوگ بھی اسی کشمکش میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔۔
روی کمار نے ابھیجیت کی کیفیت کو بھانپتے ہوئے ہلکی سی آنکھ دبا کر لائیو رہنے کا اشارہ دیا روی کمار نے باقی لوگوں کو بھی گردن ہلا کر لائیو جاری رکھنے کا اشارہ دیا ۔۔۔
روی کمار نے گھٹنوں سے چلتے ہوئے ایک نشت کے نیچے سے ایک بوتل نکالی جس میں تھوڑی سی شراب باقی تھی وہ نشئی انداز میں لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوگیا ۔۔۔ وہ بوتل کو دیکھتے ہوئے بوجھل بوجھل قدموں سے اسے آگے بڑھا جیسے نشے میں ہو اس نے یک لخت ٹرین کا دروازہ کھول دیا ۔۔۔ تیز ہوا جیسے ہی اندر داخل ہوئی۔ وہ ایسی پوزیشن میں کھڑا ہوا تھا کے بیگ سے نکلے ہوئے صفحات ہوا سے اڑ کر اس کے جسم اور چہرے پر چپک گئے ۔۔۔ اس نے اپنے چہرے پر چپکا ہوا صفحہ ایسے نوچ کے اتارا جیسے چہرے سے نقاب اتارتے ہیں ۔۔۔
“میں ان صفحات کو مقدس صحیفے سمجھ کر زندگی بھر پوجا کرتا رہا ۔۔۔ مگر ۔۔۔ مگر۔۔
یہ مقدس صحیفہ نہیں تھے ۔۔۔ بلکہ کسی کے ناپاک ہاتھوں سے لکھی خود میری منحوس تقدیر تھی ۔۔۔
وہ دلیپ کمار کے دیوداس والے انداز میں بولا ۔۔۔
اس کی اس ادکاری پر برابر والے ڈبے سے کسی نے تہنیت کے لیئے سیٹی بجا کر اسے داد دی ۔۔۔ میں تم سے پوچھتا ہوں ۔۔۔۔ تم میری تقدیر لکھنے والے ہوتے کون ہو ؟ اس نے صفحہ کو مٹھی میں مڑوڑتے ہوئے کہا ۔۔
تم ۔۔۔تم ۔۔۔ یقیناً بھاگوان نہیں ہوسکتے ، نا ایشور نا خدا ۔۔۔ پھر تم ہوتے کون ہو ۔۔۔ ان صفحوں پر میری تقدیر لکھنے والے ۔۔۔ اس نے
مڑا ہوا صفحہ جو اب گانٹھ بن چکا تھا اچھال کر باہر پھینکا۔۔ جو ہوا کے دباو سے واپس اس کے منہ پر طمانچہ کی طرح واپس آ لگا ۔۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے بولا ۔۔۔ تم نے دیکھا پارو ۔۔۔ میں کتنا
بے بس ہوں ۔۔۔
کسی دوسرے کی لکھی تحریر آج میری ذلت و رسوائی کا سبب بن گئی ہے ۔۔۔
یہ تحریر محض تحریر نہیں بلکہ اس میں لکھے ایک ایک حرف ۔۔۔ ایک ایک حرف ۔۔۔
میری ہتھیلوں کی لکیروں میں پیوست ہوکے میری تقدیر بن گیا ہے ۔۔۔
دنیا والوں ۔۔۔ سن لو ۔۔۔۔
وہ بوتل لہراتے ہوئے بولا ۔۔
مجھے ناکام ادکار کے نام سے یاد نا رکھنا ۔۔۔
وہ بوتل میں بچے ہوئے باقی چند گھونٹ اپنے حلق میں انڈیلتے ہوئے بولا ۔۔۔
تم لوگ گواہ رہنا ۔۔۔
آج میں نے اپنا آخری کریکٹر ادا کر دیا ہے جو میں نے خود لکھا ہے ۔۔ میری موت ہی میری سب سے کامیاب ادکاری ہوگی ۔۔
یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا اور ٹرین نے دروازے پر جھول کر کانپتی آواز میں گانے لگتا ہے ۔۔۔۔
” زندگی آرہا ہوں میں ۔۔۔۔
زندگی آرہا ہوں میں ۔۔۔
اچانک اس کا سر کسی چیز سے ٹکراتا ہے ۔۔۔
ابھجیت اس آواز سے چونکتا ہے ۔۔۔
اور اس کے قریب جانے لگتا ہے ۔۔۔۔
ٹرین اسٹیشن پر پہنچنے کے اشارے کے لیئے زور سے ہارن دیتی ہے اور دھیرے دھیرے رفتار کم ہوتے ہوتے اسٹیشن پر رک جاتی ہے
روی صاحب ۔۔۔ روی صاحب وہ پاس آکر دھیرے سے بولا ۔۔۔ مگر روی بے سدھ ہی پڑا رہتا ہے ۔۔۔ ٹرین کے رکتے ہی بہت سارے لوگ خواتین و حضرات بوڑھے بچے سب اسی ڈبے کی جانب جمع ہوجاتے ہیں .۔۔
روی صاحب ۔۔۔۔ روی صاحب ۔۔۔۔
آنکھیں کھولیں آپ کی پرفارمنس پر کتنے سارے لوگ داد دینے آئے ہیں . ۔۔ دیکھیں صرف پانچ منٹ میں میرے لاِئیو شو کو 5K لوگوں لائیک اور کمنٹس کیا ہے ۔۔۔
وہ قریب آتے ہوئے بولا ۔۔۔
اٹھیں اسٹیشن آگیا ہے ۔۔۔ وہ ڈرتے ہوئے جیسے ہی روی کو ہاتھ لگاتا ہے روی کی گردن ڈھلک کر دوسر طرف گر جاتی ہے ۔۔۔
لوگوں کا مجمع اسے پرفارمنس سمجھتے ہوئے تالیاں پیٹنے لگتا ہے ۔
وہ کانپتے ہاتھوں سے روی کی شہ رگ دیکھتا ہے اور دکھ سے بھری آواز میں کہتا ہے
خاموش ہو جاو ۔۔۔
بھگوان کے لیئے بند کرو تالیاں
روی کمار کا دھیناتھ ہوگیا ہے ۔۔۔
خاموش ہوجاو تالیاں بند کرو ۔۔۔
وہ بری طرح چینخنے لگتا ہے ۔۔۔
مگر اس کی آواز چاروں طرف سے مسلسل آنے والی سیٹیوں اور تالیوں کی آواز میں دب جاتی ہے ۔۔۔۔

ختم شد


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International