نذیر قیصر صاحب ایک نہیں، دو نہیں، پوری تین نسلوں کے نمایندہ شاعر ہیں. پاکستان اور اہل پاکستان کی خوش قسمتی کہ یہ سچا کھرا، اور فطرت سے پیار کرنے والا اور فطرت کے حسن بے بہا پہ شعر کہنے والا شاعر اس دھرتی کو میسر ہے.
دھیمے لہجے میں بات کرنے والے نذیر قیصر صاحب اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں یکساں مہارت کے ساتھ شاعری کرتے ہیں اب تک تیرہ کتابیں تخلیق کر چکے ہیں، مزید پانچ کتابیں ان کی طباعت کے مراحل میں ہیں. دوپہر کی دھوپ جناب نذیر قیصر صاحب کی تیرہویں کتاب ہے. اور تیرہ کے ہندسے کو ایک خاص قسم کی برکت اور بشارت دی گءی ہے. نذیر قیصر صاحب کو پچھلے سال چودہ اگست 2023 کے موقع پہ ان کی گراں قدر ادبی کاوشوں کے صلے میں پراییڈ آف پرفارمنس کے انعام کا حقدار بھی ٹھہرایا گیا اور 23 مارچ 2024 کو گورنر ہاؤس میں انھیں اس ایوارڈ اور انعامی رقم سے باقاعدہ طور پر نوازا بھی گیا. اور لوگوں کی محبت، نذیر قیصر صاحب سے صرف اس ایک جملے سے عیاں ہوتی ہے کہ نذیر قیصر صاحب کو پراییڈ آف پر فارمنس ملنا، نذیر قیصر صاحب نہیں بلکہ ایوارڈ کی عزت افزائی ہے. وہ فیض احمد فیض کا شعر ہے ناں کہ
وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جاے گی الفت مجھ
اک نظر تم میرا، محبوب نظر تو دیکھو
والی situation, جناب نذیر قیصر صاحب کے پراییڈ آف پر فارمنس والی صورتحال پہ صادق نظر آتی ہے.عام لوگوں اور تمام ادبی حلقوں نے نذیر قیصر صاحب کو پراییڈ آف پر فارمنس ملنے پہ گونا گوں طمانیت اور خوشی کا برملا اظہار اس بات کا امین ہے کہ ایوارڈ حق دار تک پہنچا.
دوپہر کا چاند، شہر ادب سے شایع ہوی جو نذیر قیصر صاحب کا اپنا ہی اشاعتی ادارہ ہے، کتاب کا انتساب نسیم احمد عثمانی، ڈاکٹر عرفان الحق، شہزاد انجم،
اور سرفراز تبسّم کے نام کیا گیا ہے. کتاب کا آغاز نذیر قیصر صاحب کے اس مشہور زمانہ شعر سے ہوتا ہے.
حرف سے کونپلیں نکل آءیں
میرا لکھا، پڑھا قبول…. ہوا
ایک سو ساٹھ صفحات پہ مشتمل شاعری کی یہ کتاب غزلوں پہ مشتمل ہے، نذیر قیصر صاحب فطرت، امن اور محبت کے شاعر ہیں انہوں نے روایتی غزل کے لوازمات سےانحراف کرتے ہوئے قارئین کو ایک نءی غزل سے متعارف کروایا ہے، روایتی محبوبہ کی جگہ ایک ماڈرن محبوبہ کا ذکر کیا ہے جو انگریزی طرز کے لباس میں ملبوس، اپنے بواے کٹ بالوں کو لہراتی، اٹھلاتی، اٹھکھیلیاں کرتی جب باغ کی سیر کرتی ہے تو عاشق اس کے دیدار کو ایک کے بعد دوسری کھڑکی کا سہارا لینے پہ مجبور ہو جاتا ہے. نذیر قیصر صاحب فرماتے ہیں.
شاعروں کی پرانی محبوبہ
شاعری سے نکال دی میں نے
وہ سرو قد حسینہ، جس کی زلفیں ناگن جیسی ہیں، چال ہرنی جیسی ہے، رنگت شہابی اور آنکھیں نشیلی، نذیر قیصر صاحب کی محبوبہ کوی خیالی محبوبہ نہیں، اسی دنیا کی جیتی جاگتی، ہنستی مسکراتی، پزے برگر اڑاتی، بالی بال میں ٹرافیاں لیتی، محبوب کے نازو ادا کسی ماں کی مامتا جیسے اٹھاتی ہوی، کبھی سوپ تو کبھی مٹر پلاو بنا کے اپنے محبوب کی تواضع کرتی ہوی اسی عہد بے مروت میں سانسیں لیتی ہوی ایک حسینہ دلربا ہے جو محبت کرنے اور کروانے کے تمام ہتھیاروں سے بخوبی لیس ہے اسی حسینہ کی زلفوں کے اسیر نذیر قیصر صاحب اپنی رومان پرور شاعری سے نہ صرف اپنی محبوبہ بلکہ اپنے قارئین کے لیے بھی خوبصورت غزلیں تخلیق کرتے رہتے ہیں. بچوں کی سوچ رکھنے والے نذیر قیصر صاحب بچوں جیسی حیرت آنکھوں میں لیے دنیا اور کاینات کے خفیہ رازوں سے آشنائی کے فن سے خوب واقف ہیں.
اچھے اور بڑے شاعر کے فرق سے بخوبی آشنا نذیر قیصر صاحب فرماتے ہیں.
میں شاعر ہوں، خواب میں چلتا رہتا ہوں
میں نے اپنے خواب سے آگے جانا ہوتا ہے.
وہ نفسانفسی اور آپا دھاپی دنیا میں حوصلے اور صبر سے جینے کے فن سے آشنا ہیں اور ہمیشہ مثبت سوچ کو لے کر چلتے ہیں. نذیر قیصر صاحب کی وضع داری کا یہ عالم ہے کہ وہ بری بات کرنا تو دور، بری بات سنتے بھی نہیں ہیں
اور حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ
زندگی راستہ نہیں دیتی
راستہ خود بنانا پڑتا ہے
اور محبوبہ پہ بھروسہ اتنا زیادہ ہے کہ
سیڑھیوں میں بڑا اندھیرا تھا
وہ مجھے راستہ دکھانے لگی
اور زندگی کے تیر ستم کو کس ہنر مندی سے تصویر کرتے ہیں.
ابھی کھولی تھی آنکھ بچے نے
زندگی فیصلے سنانے لگی
بڑے بڑے محلات میں رہنے والوں کے حال کو کمال بے بسی کے پلو میں لپیٹ کر یوں بیان کرتے ہیں.
خالی پڑا ہوا ہے محل سو کنال کا
ٹیبل پہ سو طرح کے ہیں کھانے پڑے ہوے.
مسمار شہروں میں اپنوں کو ڈھونڈتے ہوے نذیر قیصر صاحب پہ بھی افسردگی اپنے اثرات یوں چھوڑتی ہے.
ایک مسمار شہر ہے جس میں
اپنے لوگوں کو ڈھونڈتا ہوا میں
وہ اتنے نرم دل اور مہربان ہیں کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ ان کی یہ رحمدلی پرندوں اور جانوروں پہ بھی سایہ فگن دکھائی دیتی ہے.
ایک مچھلی جو ہاتھ آی تھی
پھر سے دریا میں ڈال دی میں نے
اور صابر اتنے ہیں کہ خود کھانا کھایں یا نہ کھایں انھیں ہمیشہ اپنی پالتی بلیوں کے کھانے کی فکر رہتی ہے اور وہ ان کے لیے چکن، انڈے، ڈبل روٹی اور مٹھائیاں خریدتے اور ڈھونڈتے ہیں.
خوابوں کی راجدھانی سے جڑے ہوئے نذیر قیصر صاحب انسانی زندگی میں خوابوں کی اہمیت اور خوابوں کے اثرات سے بخوبی آگاہ ہیں. فرماتے ہیں.
تیرے آنے سے پہلے دنیا کو
تیرے آنے کا خواب آیا تھا
ان کے ہاں زندگی اپنے پورے جلترنگ، آن بان اور شان کے ساتھ. مسکراتی اور اٹھکھیلیاں کرتی دکھائی دیتی ہے. شعر دیکھیے گا.
آخری بار وہ ملی ہم سے
آخری بار ہم سوات گئے
؛
شاعر مذہب، رنگ نسل اور حدود کی قیود سے آزاد ہوتا ہے نذیر قیصر صاحب اسی سچ کی ترجمانی ایسے کرتے ہیں.
سارے الہامی صحیفے ہیں مرے
ساری دُنیا کا ادب میرا یے.
اور دھوپ میں دایرے بناتا ہوا ست رنگا گوری کا لباس جب نذیر قیصر صاحب کے قلم کے حصار میں آتا ہے تو پھر ست رنگا لباس بھی جھلمل جھلمل کرنے لگتا ہے.
دھوپ میں دایرے بناتا ہوا
ست رنگا لباس گوری کا
اور سماجی ناہمواریوں کا رونا یوں روتے ہیں.
کسی مزدور کا پسینہ ہے
سونا چاندی تری تجوری کا
روحانیت کے لبادے میں لپٹے ہوے نذیر قیصر صاحب اپنی روحانی بالیدگی کا ذکر یوں فرماتے ہیں.
خانقاہوں میں بارگاہوں میں
مجھ سے پہلے مرا حوالہ گیا
نذیر قیصر صاحب کو اپنی تیرہویں کتاب کی اشاعت پہ دلی مبارکباد اس دعا کے ساتھ کہ آپ اپنی دلوں کے تار چھیڑتی ہوی مدھر شاعری سے ہم سب کو نوازتے رہیں گےاس خوبصورت اور مشہور زمانہ غزل کے ساتھ اجازت.
غزل
دنیا اچھی لگتی ہے رب اچھا لگتا ہے
اچھی آنکھوں والوں کو سب اچھا لگتا ہے
ساری کتابیں، سارے صحیفے مجھ پہ اترے ہیں
.مجھ کو دنیا کا ہر مذہب اچھا لگتا ہے
چڑھتے اور ڈھلتے سورج کی صورت ایک سی ہے
رنگ مشرق ہو یا مغرب اچھا لگتا ہے
جب بچے کی ساری باتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں
پھر ساری باتوں کا مطلب اچھا لگتا ہے
جس نے گھر میں کانٹوں والی باڑھ لگا رکھی ہو
اس کو باہر کا موسم کب اچھا لگتا ہے
قیصر کسی بھی رستے میں اور چوکھٹ پر
جب بھی دیا جلاتا ہوں تب اچھا لگتا ہے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Naureen drpunnamnaureen@gmail.com
Leave a Reply