احمد وکیل علیمی
دوردرشن کولکاتا
نسیم اشک اردو ادب میں ایک سریع الفہم قلم کار ہیں۔ نئی نسلوں میں نسیم اشک اپنی تخلیقات میں جان کھپانے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقات اپنی انفرادیت منوانے پر کم بستہ رہتی ہیں۔ خاص طور پر نثر نگاری میں نسیم اشک مثل ” جوتے ہل تو پاوے پھل” کے راہ رو نظر آتے ہیں۔ نسیم اشک کی نثری خوبیوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔ صوفی بزرگ حضرت ابو بکر صید لانی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں۔ ” سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کی خوبیاں دیکھے اور اپنی خوبیوں کو نظر انداز کردے۔”
میں خاکسار احمد وکیل علیمی
ان کے ادب پارے ” چراغ جلتا رہا” کے منظر عام پر آنے کی خوشی میں ان کو منظوم مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
چراغِ ادب تیرا جلتا رہے گا
ادب کا یہ سورج نکلتا رہے گا
ادب پارے کی پاسداری کرو ہو
یہ سچ ہے بہت مغز ماری کرو ہو
نسیم اپنی جاں تم کھپاتے رہے ہو
اس لیے نام اتنا کماتے رہے ہو
توُ ہے عزم بالجزم کا راہ رو بھی
ہے تحریر میں تیری اک خاص ضو بھی
چراغِ ادب تم جلاتے ہی رہنا
کہ غنچہءِ دِل بھی کھِلاتے ہی رہنا
یقیناً ادب میں تری ہوگی سطوت
زمانہ بھی دیکھے گا تیری وہ شوکت
بڑھائے گی آگے تجھے وہ فراست
بنھاتے سبھی سے ہو تم جو قرابت
ادب میں چراغاں کروتم، دعا ہے
علیمی کے دل کی یہی اک صدا ہے
Leave a Reply