میرے تخیل کی دنیا ویرانی میں گھیری تھی
کہ
توں نے جب قدم رکھے
اس تخیل کی ویرانی میں
اس
قدر وسعت آئی کہ ہر جانب بہاروں نے جگہ بنا لی
اور
پنہاں زخم موت کی وادی میں اتر گئے
اور
میں زخموں سے عاری سکون کی وادی میں اتری
میں نے قدم رکھے
میرے دل نے
تم کو محسوس کیا اور غم زائل ہوئے
یوں
میرے وجدان میں اترے
جیسے کہیں گھپ اندھیرے میں ایک دم توڑتے آدم کو روشنی کے آثار مل جائیں
اور یوں میں نے اپنے وجود پہ
محبت کی چادر اوڑھ کر
اپنے تن پہ طاری وحشت اکھاڑ پھینکی
کہ دل اب سکون کی سانسیں لیتا امان پانے لگا ہے
کہ اب زخموں کی مدت اختتام کو جا پہنچی ہے
اب محبت کا درد گم شدہ ہے
کہ
اب سکون ہی ہر جانب بیکھر چکا ہے
کہ توں بہار کی مانند آیا ہے
اور
ہر جانب پھولوں کو بہار کا عندیہ دیتے ہوئے
پھولوں کو کھلنے کا پیغام دے گیا ہے
Leave a Reply