rki.news
از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
دونوں سمت ہے ایک سا دعویٰ
دونوں سمت ہے ایک سا نعرہ
جیت گئے ہیں ہم اپنی جنگ
ہم نے کاری ضرب لگائی
دشمن نے ہے منہ کی کھائی
گرنے لگے تھے ہم دلدل میں
اٹھے ہیں لیکن اک پل میں
ہم نے ہے دشمن کو پچھاڑا
اپنا دشمن یونہی دھاڑا
لیکن
پیارے اہل وطن ہمارے
اپنے ہو تم چاند، ستارے
ذرا کبھی اس سمت بھی سوچو
جنگ سےہو گی کس کو محبت
جنگ تو ہوتی ہے اک وحشت
جنگ ہے کب کس گھر کی ضرورت
دلوں میں بس بڑھتی ہے کدورت
راکٹ سے مٹتی نہیں غُربت
بنتی ہے انسان کی تُربت
پھول کھلایا کبھی نہ ہم نے
دل کو ملایا کبھی نہ ہم نے
کریں اب ختُم ظلمت کی دھول
کھل اٹھیں ہر جانب
الفت کے پھول
جائیں ہم بھی نفرت بھول
امن میں، پیار میں جائیں جٌھول
جنگ تو غربت کا مسکن ہے
شہروں کو کر دیتی بن ہے
زخم ہمارا ہو کہ تمہارا
زخمی ہوتا اپنا تن ہے
کیسے جنگ کا جشن منائیں
درد اپنا ہم کسے دکھائیں
جنگ سے کسی کو ملتا ہے کچھ؟
امن کا پھول بھی کھلتا ہے کچھ؟
جنگ کو بھولو، دوستی کر لو
امن و محبت میں گھر کر لو
پیار سے رہنا سیکھو جگ میں
پیار بساؤ تم رگ رگ میں
ہم سے دُور جہنم جاۓ
یہ دُنیا جنت ہو جاۓ
Leave a Reply