(تحریر: احسن انصاری)
نعت گوئی کا سلسلہ ابتدائے اسلام ہی سے جاری ہے۔ صحابہ کرامؓ میں حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن زہیرؓ اور دیگر کئی شعرا نے نبی کریم ﷺ کی شان میں نعتیہ اشعار کہے، جنہیں خود رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا۔ حضرت حسان بن ثابتؓ کو تو “شاعرِ رسول” کا لقب بھی عطا ہوا۔ بعد ازاں، اسلامی تاریخ میں عرب، فارس، برصغیر، ترکی اور دنیا کے دیگر خطوں میں نعت گوئی کا سلسلہ جاری رہا۔ فارسی میں مولانا جلال الدین رومیؒ، عربی میں امام بوصیریؒ، اور اردو میں امیر خسرو، علامہ اقبال، مولانا احمد رضا خان بریلوی، حفیظ تائب اور دیگر شعرا نے نعتیہ شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔
نبی اکرم ﷺ کی تعریف و توصیف اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے، کیونکہ خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے حبیب ﷺ کی مدح سرائی کی ہے: “وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ” (الشرح: 4) “اور ہم نے تمہارے لیے تمہارے ذکر کو بلند کر دیا۔” یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود بلند فرمایا ہے، اور جب اللہ کسی چیز کو بلند کرے تو اسے مزید بلند کرنا سعادت اور اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے۔ اسی بنیاد پر نعت کہنا اور سننا امتِ مسلمہ کی عظیم روایت ہے، جو رسول اللہ ﷺ سے محبت و عقیدت کے اظہار کا ذریعہ بنتی ہے۔
نعت وہ ذریعہ ہے جس سے اہلِ ایمان نبی کریم ﷺ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ امتِ مسلمہ کا ہر فرد، چاہے وہ کسی بھی خطے، نسل یا زبان سے تعلق رکھتا ہو، نعت کو محبت و عقیدت کا ایک لازمی ذریعہ سمجھتا ہے۔ برصغیر میں نعتیہ مشاعرے، میلاد النبی ﷺ کی محافل، اور گھریلو نشستوں میں نعت خوانی ایک عام روایت ہے، جہاں عاشقانِ رسول ﷺ نبی کریم ﷺ کی تعریف و توصیف میں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
نعت نہ صرف روحانی سکون کا ذریعہ ہے بلکہ یہ مسلمانوں کو عملی طور پر نبی کریم ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ نعت کی برکت سے دل میں محبتِ رسول ﷺ پروان چڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں اخلاق، کردار اور معاملات میں بہتری آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت خوانی کا اہتمام محافلِ میلاد، جمعہ کے خطبات، اسلامی اجتماعات اور گھریلو نشستوں میں خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے درمیان محبت و اتحاد پیدا کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔
نعت گوئی ایک عظیم ورثہ بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ نعت لکھنے اور پڑھنے والے کو چاہیے کہ وہ احترام کے تمام تقاضے پورے کرے، مبالغہ آرائی سے گریز کرے، اور صرف وہی الفاظ استعمال کرے جو دین کی حدود کے اندر ہوں۔ نعت گوئی کا مقصد حضور ﷺ کی سیرت اور تعلیمات کو اجاگر کرنا ہونا چاہیے، تاکہ سننے اور پڑھنے والوں پر اثرانداز ہو سکے۔
نعت پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ادب کے تمام اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھے۔ نعت محض شاعری یا گانے کی طرح نہیں بلکہ ایک دینی اور روحانی عمل ہے، جس میں نبی کریم ﷺ کی عظمت کا ذکر انتہائی احترام اور محبت کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ نعت گوئی کے دوران کسی بھی ایسے الفاظ یا جملوں سے گریز کرنا چاہیے جو دین کے اصولوں کے خلاف ہوں یا عقیدے میں کسی قسم کی الجھن پیدا کریں۔
جدید دور میں جہاں میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ہر قسم کی معلومات کی ترسیل کو آسان بنا دیا ہے، وہاں نعت خوانی کو بھی ایک نئی جہت ملی ہے۔ آج یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نعتیہ کلام بڑی تعداد میں شیئر کیے جاتے ہیں، جنہیں سن کر لاکھوں لوگ عشقِ رسول ﷺ کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں۔
مسلمان نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نعت کے پیغام کو مزید عام کریں اور اسے پوری دنیا تک پہنچائیں۔ نعت محض ایک صنفِ شاعری نہیں بلکہ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کو دین کے قریب لے آتا ہے، ان کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی محبت جگاتا ہے اور انہیں سیرتِ طیبہ کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔
نعت رسولِ کریم ﷺ اہلِ ایمان کے درمیان عشق و محبت کی ایک مشترکہ کڑی ہے جو انہیں نبی اکرم ﷺ کے قریب لے جاتی ہے۔ یہ وہ مقدس ذریعہ ہے جس سے دلوں میں عشقِ رسول ﷺ بیدار ہوتا ہے، ایمان تازہ ہوتا ہے، اور عملی زندگی میں دینِ اسلام کی روشنی داخل ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نعت کو نہ صرف عقیدت کی نظر سے دیکھیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے اعمال کو بھی درست کریں تاکہ ہم حقیقی معنوں میں نبی اکرم ﷺ کے سچے عاشق بن سکیں۔ اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں نعت گوئی کے فروغ کی خاطر قائم شدہ اولین تنظیم “محفلِ نعت پاکستان” کو 36 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ اس تمام عرصے کے دوران اس تنظیم کے تحت ماہانہ بنیادوں پر اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر مقامات پر نعت گوئی کی ادبی نشستوں کا انعقاد بے مثال تسلسل اور تواتر کے ساتھ جاری رہا ہے، جو دیگر معاصر ادبی تنظیموں کے لیے بھی ایک زبردست قابلِ تقلید مثال ہے۔
نعت گوئی کی سعادت کسی بھی مسلمان پر اللہ عزوجل کا خاص کرم اور فضل ہوتا ہے۔ اسی طرح فروغ۔ نعت گوئی کے لئے خدمات کی سعادت بھی جن لوگوں کو تفویض کی جاتی ہے تو یہ ان خوش نصیب افراد کے لئے شکر بجا لانے کا مقام ہے۔ تاہم ہمارے ارباب۔ بست و کشاد اور سرکاری ادبی اداروں کو بھی ادب کے ان خاموش اور مخلص خدمت گزاروں کی خدمات کا بھرپور اعتراف اور حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔
Leave a Reply