Today ePaper
Rahbar e Kisan International

نفرت کے بیوپاری

Articles , Snippets , / Sunday, May 25th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کسی انسان کے نزدیک شہرت، پیسہ یا ذاتی مفادات کی اہمیت ہر چیز سے بڑھ جاتی ہے، تب اس کے نزدیک انسانیت اور احساس ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ آپ اگر غلطی سے انڈیا کا میڈیا دیکھتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ میڈیا pinocchio ہوتا تو اب تک اس کی ناک سرحد پار کر چکی ہوتی۔ سب یہ تو جانتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، لیکن جھوٹ کا دماغ بھی نہیں ہوتا، دل بھی نہیں ہوتا، صرف زبان ہوتی ہے یہ ساری دنیا کو انڈین میڈیا دیکھ کر پتہ چلتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ میڈیا کا اصل کام صرف اور صرف سچ کی ترویج ہے تاکہ وہ سچ جو حکمران یا غاصب اپنے مفاد کے لئے عام آدمی سے ہیں، اس کو عوام کی فلاح کے لئے ظاہر کیا جائے اور سچ کا پرچم لہرایا جائے، لیکن جب ذاتی مفادات اور غاصب کے مفادات ایک ہو جائیں تو سچ کا قتل کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اور پھر جھوٹ کا پرچم لہراتے ہوئے ضمیر کی آواز سننے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی جاتی۔ میڈیا سے وابستہ خود کو صحافت کا علمبردار کہنے والے یہ افراد یہ تک بھول جاتے ہیں کہ صحافت کی الف ب پ کیا ہوتی ہے۔ انڈین میڈیا نے جس طرح حالیہ مئی 2025 میں ہوئے پاک انڈیا تنازع پر تیل ڈال کر آگ بھڑکانے کا کام سر انجام دیا، اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ وہ گدھ ہیں جن کو نوچنے کے لئے ایک لاش چاہئے، پھر چاہے وہ لاش ان کے اپنے بھائی کی ہی کیوں نہ ہو۔ جھوٹ بول بول کر پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگے یہ گدھ یہ بھی بھول گئے کہ دو نیوکلیئر ممالک اگر ایسی کسی نفرت کی اگ کا ایندھن بنے تو دنیا کی تباہی کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ لیکن صرف سستی شہرت اور پیسے کے حصول کی خاطر ذہنی مریض بنے یہ انڈین میڈیا کے اینکر اور تجزیہ نگار عوام کے جذبات سے کھیلتے رہے، اور ان کو یہ شرم بھی نہ آئی کہ جب حقیقت عوام پر آشکار ہو گی تو ہماری کتنی سبکی اور بدنامی ہو گی ، لیکن پھر اردو ان کی ایسی حرکات پر بھی ایک محاورہ لے کر سامنے آ جاتی ہے کہ ‘ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا’ ، اور ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ نام کمانے کے لئے یہ بدنام ہونے کو بھی تیار ہیں۔ دنیا میں انڈیا کی جگہ ہنسائی ہونے پر کئی انڈین چینلز سوکھے منہ سے معافی تو مانگ چکے ہیں، لیکن ساتھ ہی جیب میں آیا پیسہ بھی گن چکے ہیں کہ یہ بدنامی کتنے میں پڑی ہے اور شاید زیادہ پیسہ دیکھ کر بدنامی آسانی سے ہضم بھی کر چکے ہیں۔ انڈین میڈیا کا کردار ہمیشہ سے کوئی اچھا کردار نہیں رہا ہے اور وہ ہمیشہ سے جلتی پر تیل ڈال کر ہاتھ سینکنے میں مصروف نظر آتا رہا ہے، اس بات کا اندازہ ایسے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ پریس فریڈم 2024 کی رپورٹ میں انڈیا کا درجہ 159 ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انڈین میڈیا کتنا آزاد ہے اور کتنا حکومت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے ۔گزشتہ دو دہائیوں میں خاص طور پر انڈین میڈیا جس طرح نفرت کے بیوپار میں مصروف نظر آتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس میڈیا کو دولت کی ہوس نے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ یہ ملک کا امن تہہ و بالا کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جس کی مثالیں انڈیا کے مسلم ہندو فسادات سے بھری پڑی ہیں جہاں انڈین میڈیا نفرت کی ایسی آگ بھڑکانے میں مصروف ہے جس کا ایجنڈا صرف دولت کا حصول نظر آتا ہے ۔ انڈین میڈیا ماضی میں بھی اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف بنا تحقیق خبروں اور تجزیوں کے ذریعے ایسی نفرت کی آگ بھڑکاتا رہا ہے جس سے انڈیا کے درو دیوار خون سے لال ہو چکے ہیں۔ جن کی مثالیں تو شاید پوری کتاب کی متقاضی ہوں لیکن چنیدہ مثالوں میں دہلی فسادات 2020 میں انڈین میڈیا کا کردار، پلوامہ حملہ 2019 کی جانبدارانہ خبریں اور تجزیے جس سے نفرت کی فضا بنا کر جنگ کا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی، یہاں تک کہ ارنب گوسوامی کی لیکس نے یہ بات اجاگر کی کہ پلوامہ اور بالاکوٹ حملے کی سازش کیسے اور کس طرح تیار کی گئی۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں جو انڈین میڈیا کے کردار کو ایک نفسیاتی مریض ثابت کرتی ہیں۔ انڈین میڈیا پر خبریں اور تجزیوں کو پیش کرنے کا معیار ایسا نظر آتا ہے جیسے آپ کسی میدان میں مرغوں کی لڑائی دیکھنے میں مصروف ہوں۔ چیخ چیخ کر، تھوک اڑا اڑا کر، ایک گالم گلوچ کا ماحول بنا کر مرغوں پر لگا پیسہ تو کمایا جا سکتا ہے لیکن میدان میں کتنی خاک اڑی اس کو نہیں روکا جا سکتا۔ ان کے اس کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے انڈین سپریم کورٹ تک نے میڈیا کو حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر سرزنش کی ہے اور غیر جانبداری، احتیاط اور تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ انڈیا جو خود کو بزعم خود جمہوریت کا چیمپئن گردانتا ہے، پچھلے 14 سالوں میں مودی سرکار آنے کا بعد ایک ڈیکٹیٹر حکومت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک طرف یہ میڈیا مودی سرکار کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر ناچ رہا ہے اور دوسری طرف مودی مخالفین پر کیچڑ اچھال اچھال کر امن ق آشتی کا پورا ماحول گندا کر چکا ہے، جس کا انعام میڈیا کو زر کی صورت خوب مل رہا ہے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اردو میں زر پر ناچنے والوں کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا۔ صحافت سے زرد صحافت تک کو معیار سمجھتے ہوئے یہ چینلز شائد وقتی شہرت کی چکا چوند میں وہ اندھیرا نہیں دیکھ پا رہے جو ایک سیکولر معاشرے کو دھیرے دھیرے نگل رہا ہے۔ حالیہ پاک انڈیا کشیدگی کے اختتام پر جو شاید انڈین میڈیا کو قبول نہیں تھا، ایک بات سب کو سمجھ آ گئی ہے کہ انڈین میڈیا کو صحافت کے اصول دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے، جہاں ان کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صحافی کا کام خبر پہنچانا اور تجزیہ کرنا ہے، اپنے ذاتی ایجنڈے کے حصول کے لئے خبروں اور تجزیوں میں بد دیانتی کرنا نہیں ہے۔ یہ بد دیانتی انڈیا میں واضح تفریق کا باعث بن رہی ہے اور اُن جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے جس کی بنیاد پر انڈیا نامی یہ درخت کھڑا ہے۔ کم از کم انڈیا کے ان تمام میڈیا ہاوسز کو حالیہ کشیدگی میں کی گئی اپنی رپورٹنگ خود بیٹھ کر دوبارہ دیکھنی چاہئے تاکہ شاید انہیں اس آئینے میں اپنا اصل چہرہ دیکھ کر تھوڑی سی شرم آ جائے اور وہ سوچنے لگیں کہ ‘ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ‘


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International