پچیسواں روزہ تھا، ماہم کے گھر میں کءی دنوں کے ان دھلے کپڑوں کا ایک ڈھیر تھا، ماہم کپڑے دھونے کا سرف لینے مارکیٹ تک آ گءی تھی، گاڑیوں کی لمبی قطار کے ساتھ ساتھ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا جم غفیر ،لوگ دوکا نداروں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بھی الجھ رہے تھے، دھکم پیل جاری تھی،
ایکدوسرے کو دھکے مارتے ہوےلوگ، ایک دوسرے کے پیروں کو مسلتے ہوےلوگ، ایک دوسرے کا حق مارتی ہوی عوام، ماہم اپنے پاس سے کہنی مار کے گزرتی ہوی ایک موٹی تازی عورت کے عتاب سے ابھی بمشکل سمبھلی ہی تھی کہ اتنی بھیڑ میں ایک موٹر سائیکل سوار ٹایر کو اس کے دایں پیر کے اوپر سے گزارتا ہوا آگے بڑھ گیا، ماہم کے ہاتھوں میں پکڑا ہوا کھلے سرف کا شاپر اور چینی کی چینک تو اس کے ہاتھوں سے چھوٹی سو چھوٹی، وہ خود بھی چکرا کے گر پڑی اور اس کے آنسوؤں کی جھڑیاں رواں ہو گییں جب لوگوں کے اتنے بڑے ہجوم میں سے کسی ایک بھی مای کے لعل کے پاس اسے سہارا دینے کے لیے ایک پل کی فرصت بھی نہ تھی،ماہم نے سوچا وہ تو اس گونگے. بہرے اور اندھے ہجوم میں کچلی جاے گی، یہ کچلے جانے کا احساس اتنا جان لیوا اور خطرناک تھا کہ وہ یک لخت ہی اپنے پیروں پہ کھڑی ہو گءی اسے اپنے ہاتھوں سے گر جانے والی چیزوں کی قطعاً پروا نہ تھی، وہ تو بس اس ہجوم بے کراں سے کہیں دور، کسی مضبوط پناہ گاہ کی طرف لوٹ جانا چاہتی تھی، جانا کہاں تھا، دراصل وہ اپنے گھر، اپنے کمرے میں اپنے بستر کے اندر دبک جانا چاہتی تھی! دراصل اسے اپنی زندگی میں سب سے محفوظ پناہ گاہ اپنا بستر ہی لگتا تھا جہاں لیٹتے ہی وہ بے خبر ایک پرسکون نیند کی وادی میں اتر جاتی تھی، خیر ماہم کو ابھی تو اپنے گھر پہنچنا تھا اور وہ تہی دست تھی اس کے پاس گھر جانے کا کرایہ تک نہ تھا، ماہم کو اپنی بے بسی پہ بے ساختہ رونا آگیا، اگر آج اس کے گھر میں کپڑے دھونے کا سرف ہوتا تو وہ کبھی بھی بازار آنے کا نہ سوچتی مگر واے ری قسمت
گھربھرکے دھونے والے کپڑوں کا ایک بڑے ڈھیرنے ماہم کو گھر سے بازار دھکیل ہی دیا اور یہاں اندھی، گونگی اور بہری عوام کے چنگل میں یوں پھنسی کہ اس کے ہاتھوں سے خریدی ہوی اشیاء بھی گییں اور وہ خود بھی موت کے منہ سے بال بال بچ کے گھر پہنچ ہی گءی، ماہم کے ذہن میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا تقدس اور تعلیمات کسی فلم کی طرح گھومنے لگیں، دادی اماں کی گرجدار آواز، صوم کا مطلب ہےروک لینا یعنی روزے کی حالت میں ہم اپنے کو کھانے پینے سے ہی نہیں روکتے بلکہ تمام برے افعال، جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کر رکھا ہو، اپنے آپ کو روک کے رکھتے ہیں، سحری سے افطاری تک عبادت کی حالت میں ہونے کا مطلب ہے کہ جھوٹ، چوری چکاری، غیبت، بہتان بازی، ناجائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، لڑائی جھگڑے سے مکمل طور پر بچنا ہے، کسی کی دل آزاری نہیں کرنی، اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر پوری کرنی ہیں، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے پیار کرنا ہے، رشتہ داروں، ہمسایوں، مسافروں، بیماروں کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرنی، غریبوں اور مانگنے والوں کی حتیٰ البساط مدد کرنی ہے، دل اور روح کی کشادگی کے ساتھ ساتھ عبادات کی ادائیگی بھی جوش و خروش سے کرنی ہے، یہ وہ اسباق تھے جو ماہم کی دادی اماں، بڑی اماں، اماں اور خالائیں، پھوپھیاں گھر کے تمام بچوں کو کہانی کی صورت میں پورا رمضان بتاتی رہتی تھیں اور ماہم اور گھر کے تمام بچوں کو تمام اسباق بچپن ہی سے دو کے پہاڑے کی طرح زبانی یاد تھےاور ساروں نے زندگی بھی انھی تمام اخلاقیات پہ عمل پیرا ہو کر گزار دی جو انھیں، ان کےبڑوں نے بتاے تھے، اور سچ میں زندگی بڑے سکون سے گزر گءی، بھولے بھٹکوں کو راہ دکھاتے، لوگوں کی مدد کرتے،سب لوگ بڑے امن سکون سے رہ رہے تھے پھر نجانے کس شریک کی نظر لگی کہ ساری قوم ہی کسی نفسا نفسی کے عفریت کی آسیر ہو گءی، ہر کوی اپنے لیے فراخ دل اور دوسروں کے لیے کنجوس ہو گیا، لوگوں نے ٹہلنا، چہل قدمی کرنا، اپنے آپ سے باتیں کرنا، اپنے پیاروں کے حال احوال پوچھنا، لوگوں، اپنوں اور بیگا نوں کی مدد کرنا ہی نہیں چھوڑا، مدد کا خیال کرنا ہی چھوڑ دیا، ہاے ہم کتنے بدنصیب ہو گیے، ہمارے ضمیر مردہ ہو گیے اور ہم نے چلنا نہیں دوڑنا شروع کر دیا، گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں کو بھی ایسی بھاگم دوڑی مچ گءی کہ سڑکوں پہ اندھا دھند بھاگے پھرتے ہیں، قطار کا کوی concept ہی نہ رہا، کسی کو دو منٹ قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑ جاے تو ہارن بجا بجا کر، شور مچا مچا کر دوسروں کے کان پھاڑنے میں کوی کسر
نہیں چھوڑتا، یعنی کہ بد تہذیبی اور بدتمیزی کی انتہا ہو چکی ہے، سحر یوں اور افطاریوں کے نام پہ جن فضول خرچیوں کے کلچر کو ہم نے رسم و رواج کی طرح اپنے اوپر مسلط کر چھوڑا ہے ہمارے اللہ نے ایسا کرنے کا ہمیں کبھی بھی نہیں کہا مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ہم نے اللہ پاک کے ہر ہر حکم سے روگردانی ہی کو مذہب بنا دیا، نمود و نمایش ،بے جا اصراف اور بے حسی کا پرچار، نہ حق رشتہ داری، نہ حق ہمساییگی اور تو اور ایک ہی گھر میں رہنے والے کءی کءی ماہ تک ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھ پاتے، مصروفیات ہی اتنی زیادہ ہیں، ماہم اپنے مستقبل اور حال کو ایک فلم کی صورت دماغ کی سکرین پہ چلتے دیکھتی رہی اتنے میں افطاری کا سایرن بجنے لگا، ماہم نے کھجور اور سادہ پانی سے روزہ افطار کرتے ہوئے رب سے دعا کی مالک ہمیں اسی جذبہ ایمانی سے سرشار کر دے جو اہل مکہ کے مسلمانوں کو تو نے دیا جب بے سرو سامانی کے عالم میں ایک کھجور سے سحری کر کے چند مسلمانوں نے غزوہ بدر کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے تھے. آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply