فارسی کی ضرب المثل ہے “نقل را چہ عقل” یعنی نقل کے لیے عقل کی ضرورت نہیں لیکن ہمارا تجربہ کچھ اور تھا۔
ہم جیسا کہ پہلے بتاچکے ہیں کہ چوتھی جماعت نہ پڑھنے کی وجہ سے ہم خاص طور سے حساب کے مضمون میں خاصے کمزور تھے۔ یوں تو ناز ہائی اسکول کے تمام اساتذہ بہت قابل تھے لیکن ہمارے حساب اور انگریزی کے ماسٹر کچھ زیادہ ہی قابل تھے۔ کبھی ہم نے انہیں ہنسنا تو دور کی بات مسکراتے بھی نہیں دیکھا۔ شاید اس زمانے میں شاگردوں کو اپنے رعب داب میں رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہو کہ چہرے سے جاہ و جلال جھلکتا ہونے کی بجائے برستا دکھائی دے۔
خیر قصہ مختصر ششماہی امتحانات سر پر تھے۔ اس وقت (1957) سلیبس کے مطابق V میں بھی حساب، جیومیٹری اور الجبرا کے پیپرز الگ الگ ہوتے تھے۔
الجبرا ہمیں شروع سے پسند تھا۔ 100 میں سے 100 نمبر آتے۔ جیومیٹری میں تھیوریم یاد کرلیتے پورے 100 میں سے آدھے نمبر آتے، کنسٹرکشن مشکل لگتا البتہ حساب میں “امتیازی نمبروں” کے ساتھ فیل ہوجاتے تھے۔
ہم نے امتحان کے لیے بشمول حساب کے پرچے کے تمام مضامین کی بھرپور تیاری کرلی تھی۔
حساب کی کاپی میں سے حل شدہ تمام مشقوں کے سوالات کے صفحات پھاڑ کر چوتہہ کرکے قمیص کی دونوں طرف کی جیبوں میں ٹھونس لیے تھے۔ یہ یاد رکھا تھا کہ کس جیب میں، “کسر، سود ، در سود کے سوالات اور کس طرف کی جیب میں ذواضعافِ اقل، عادِ اعظم” وغیرہ کے سوالات ہیں۔
آخر حساب کے امتحان کا دن آگیا۔ رات سے ہی بڑی گھبراہٹ طاری تھی۔ گھر میں باری باری سبھی پوچھ چکے تھے کہ تیاری ہوگئی ۔ بظاہر یہ معمول کا سا سوال ہوتا ہے لیکن ہمیں لگتا تھا کہ سب کو پتہ ہے کہ ہم حساب میں صفر ہیں۔ پھر بھی ہم بڑے اطمینان سے سر ہلاکر اثبات میں جواب دیتے ۔
صبح ٹھیک سے ناشتہ بھی نہیں کیا گیا۔ سارے راستے قمیص کی دونوں جیبوں کو تھپ تھپا کر اطمینان کرتے رہے کہ “کارتوس” موجود ہیں۔ پہلے سے جاکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ دل ہی دل میں پہاڑا پڑھتے رہے، “دائیں طرف کی جیب میں ۔۔۔۔ بائیں طرف کی جیب میں۔۔۔۔۔”
امتحان شروع ہوتے ہی ہم نے سوالیہ پرچہ کو بغور دیکھنا شروع کیا۔۔سوالات تو سب وہی تھے لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جیب میں رکھا کارتوس کس سوال پر کارگر ہوگا۔ آخرکار تنگ آکر ہم نے جیبوں سے کاپی سے پھاڑے ہوئے تمام حل شدہ صفحات نکال کر سامنے اپنی ڈیسک پر رکھ لیے۔ ممتحن سے بے نیاز باری باری سوال نامے سے صفحے ملا کر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی کارتوس کام کر جائے البتہ اتنی احتیاط کرتے کہ ممتحن نہ دیکھ لے۔ ممتحن بھی تھوڑی دیر بعد چکر لگا کر پھر اپنی کرسی پر بیٹھ کر ساتھی ممتحن سے گپ شپ میں مصروف ہوجاتے۔۔
ادھر تو ہم اپنے سوالات کی “میچنگ” میں مصروف تھے تو برابر کی ڈیسک پر بیٹھا ہوا دوسرے سیکشن کا ایک طالب علم ہمارے اس عمل کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ اس کا حساب کی جگہ کسی اور مضمون کا امتحان تھا لیکن اس کے ارادے کچھ اچھے نظر نہیں آرہے تھے۔ اچانک ہمیں یاد آگیا کہ چند ماہ قبل یہ لڑکا اسکول سے گھر واپسی پر کھیتوں میں ایک چھوٹے سے لڑکے کو تنگ کر رہا تھا دوسرے بچے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے منع کیا تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ہاتھ میں پکڑا ہوا گنّا میرے سر پر دے مارا۔ چوٹ اتنی سخت تھی کہ میں چکراکر گر پڑا۔ ہوش آنے پر دیکھا آس پاس کوئی نہ تھا۔ دوسرے دن اسکول میں میری شکایت پر بھری اسمبلی میں اسے سزا ملی ۔ میں اسے پوری طرح پہچان چکا تھا۔ وہ بھی مسکرا مسکرا کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے کھڑے ہوکر آواز لگائی ماسٹر صاحب یہ لڑکا نقل کر رہا ہے۔ ہم نے گھبرا کر جلدی جلدی کارتوس جیبوں میں ٹھونسنا شروع کردیے۔ ہال کے سبھی لڑکے ہماری طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ اتنے میں دونوں نگراں ہمارے پاس پہنچ چکے تھے۔ ہماری امتحانی کاپی بمعہ تمام ناکارہ کارتوسوں کے ضبط ہوچکی تھی۔ ہم عجب کیفیت میں گھر پہنچے۔ ہمارے گھر یہ خبر ہم سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ بڑے بھیا کو ماسٹر صاحب نے وہیں اسکول میں یہ خوشخبری سنادی تھی۔ سخت ڈانٹ ڈپٹ سے استقبال ہوا۔ امتحان کا نتیجہ برا نہ نکلا۔ کلاس میں 2 پوزیشن تھی۔ ہم صرف حساب اور سندھی زبان (NMT) کے مضامین میں فیل تھے ۔ حساب کے پرچے کی ساری تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ کارتوس جو ناکارہ نکلے۔ سچ کہا ہے کسی نے ” نقل کے لیے بھی عقل چاہیے”۔
اس کے برسوں بعد 1968 میں پھر یہی کچھ صورتحال درپیش تھی۔ ہم BSc فائنل کے امتحان میں بیٹھ رہے تھے۔ بایو اور کیمسٹری ہمارے پسندیدہ مضامین تھے۔ تین سال سائنسی نمائش میں کیمسٹری کے اندر اول انعام لے چکے تھے۔ امتحانوں کے دوران بڑی آپا کی شادی تھی۔ ہم نے 15 دن پہلے ہی تمام مضامین کی تیاری مکمل کرلی تھی۔ صبح کیمسٹری کا پرچہ تھا۔ رات بھر ڈھولک، گانے بجانے ہوتے رہے۔ ہم بڑے مطمئن تھے کہ تیاری مکمل ہے۔ گاہے بگایے نوٹس دیکھ لیتے تھے پھر سب کے ساتھ آبیٹھتے گلگلے اور کشمری چائے کا دور چلتا رہتا۔
صبح سکہر اسلامیہ کالج کے امتحان ہال میں کیمسڑی کا پیپر ہمارے سامنے تھا ۔ سوال سب ہمارے حل کیے ہوئے تھے، پندرہ روز قبل لیکن اس وقت دماغ گُنگ ہورہا تھا، ہر سوال گڈ مڈ ۔ پورے ہال میں نقل کا بازار گرم تھا۔ نگراں کی سرپرستی میں۔ (آج بھی یہی حال ہے) موصوف ہمارے پاس آکر کہتے آپ کو پیپر نہیں کرنا۔ میں کہتا وہ کتاب اٹھالوں۔ نگراں کچھ بولے بغیر چلا جاتا۔ لڑکے کتابیں کھولے بڑے دھڑلے سے نقل کر رہے تھے۔ ہمیں نقل نہیں کرنا تھی۔ اسکول کے واقعے کے بعد ہمیں اپنی حماقت یاد کر کے اکثر ہنسی آتی رہی تھی۔ نگراں بیچارے نے دو تین بار اپنی “آفر” دھرائی۔
ہم نے بالکل کوری امتحانی کاپی پر اپنا درجِ ذیل فی البدیہ قطعہ لکھا ، کاپی نگراں کو تھمائی اور اُس کے اِس جملے “اڑے بابا کچھ تو لکھا ہوتا کو “سُنی ان سُنی” کرتے ہوئے امتحانی ہال سے باہر نکل آئے۔ :-
“اب امتحاں کا تم سے بھلا کیا کریں بیاں
پیپر جو دیکھا اپنی طبیعت جھٹک گئی
اک تیر تھا جو قلب میں پیوست ہو گیا
اک پھانس تھی جو آکے جگر میں اٹک گئی”
نقل کے لیے جس عقل کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے پاس آج بھی نہیں ہے. (جاری ہے)
Leave a Reply