rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے ہمارے جگ دادا جناب ڈونلڈ جان ٹرمپ نے دوسری مرتبہ امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے۔ ان کی ایک خواہشِ ناتمام ہر وقت ان کی زبان پر موجود رہتی ہے، کہ کسی طرح نوبل انعام برائے امن ان کو حاصل ہو جائے۔ یوں دنیا بھر میں امن کی کوششوں کے لئے امر ہو جانے والوں کی فہرست میں دادا ٹرمپ کا نام بھی جگمگانے لگے۔ سو اسی خواہش کی تکمیل کے لئے جناب ٹرمپ جی نے حلف لیتے ہی اس طرح دن رات خود کو مصروف کر لیا، کہ کہیں ٹیرف کے اعدادوشمار کی بھول بھلیوں میں دنیا کو الجھا کر خبروں کی زینت بن گئے، تو کہیں یوکرین کے زولینسکی کو ڈانٹ پلا کر اپنے پرانے ریسلر ہونے کا رعب جماتے رہے۔ کہیں دنیا کو لڑائی میں الجھا کر خبروں کی زینت بننے لگے، تو کہیں دنیا میں ہوتی لڑائی رکوا کر اپنی جے جے کار کرواتے سامنے آتے رہے۔ اسی تناظر میں کبھی روس کے پوٹن کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کو تیار نظر آئے، تو کبھی اسرائیل کے نیتن یاہو کو انہیں ہاتھوں سے آشیرباد دیتے نظر آتے رہے۔ کبھی چین کے شی جن پنگ کیساتھ ٹیرف اور ہانگ کانگ کے مسائل پر دھاڑتے نظر آئے، تو کبھی بھارت کے نریندر مودی کا رافیل طیارے گرنے کا تمسخر اڑاتے نظر آئے، تو کبھی مودی کو ٹیرف کے بوجھ تلے دباتے نظر آئے۔ کبھی پاکستان کے شہباز شریف کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ملے، تو کبھی ایران کے آیت اللہ خامنائی کیساتھ چومکھی لڑتے ہوئے نظر آئے۔ سارا سال جناب محترم ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر کی خبروں میں یوں چھائے رہے، کہ کوئی دن بنا ان کے نام کے نہ اخبار چھپ سکے، اور نہ کوئی چینلز پر نیوز بلیٹن نشر ہو سکے۔ پاک بھارت جنگ ایک فون پر رکوانے کا سہرا سجائے ٹرمپ نے نریندر مودی کو چھیڑ چھیڑ کر اتنا زچ کیا، کہ خود کو وشوا گرو سمجھنے والے نریندر مودی تنہائی میں اب گرو لفظ کے معنی تک بھول چکے ہیں۔ نریندر مودی جو اپنے تئیں خود کو چانکیہ کا اصل جانشین سمجھ کر خوش ہو رہے تھے۔ جب ان کا پالا ابراہم لنکن کے جانشین سے پڑا، تو ان کو سمجھ آیا کہ اب بھی امریکن چکر دینے میں پہلا نمبر ہی رکھتے ہیں۔ خیر ہمارا تو پرانا تجربہ ہے کہ پاکستان نے اتنی بار امریکہ کے ہاتھوں چکر کھائے ہیں، کہ عموماً چکرا کر ہی رہ جاتے ہیں۔ اس لئے اس بار پرانے سارے چکر سمجھتے ہوئے، ہم نے زور شور سے ٹرمپ کو نوبل انعام کا حقدار قرار دینے کا اعلان کر کے، ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے سر پر دست شفقت رکھنے پر مجبور کر ہی دیا۔ ادھر عربوں کو اپنا دوست بنائے ٹرمپ، اسرائیل کو بھی غزہ جنگ بندی پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں ٹرمپ دادا نے اپنی دادا گیری کی دھاک کل عالم پر پھیلا کر اپنے اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کی پوری تیاری کر لی تھی، کہ 2025 کے نوبل انعام پر ڈونلڈ جان ٹرمپ کا نام ہی جگمگا سکے، مگر برا ہو نوبل انعام دینے والی جیوری کا، جس کو ٹرمپ سرکار کے یہ سارے کارنامے نظر ہی نہیں آئے، اور یوں نوبل انعام برائے امن 2025 کا ہما وینزویلا کی جمہوری آزادی تحریک کی سرگرم رکن ماریہ کورینا مچاڈو کے سر جا بیٹھا۔ سوئیڈن کی رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنس کے سربراہ جورجین واٹن فریڈنس نے اوسلو میں ایک تقریب کے دوران یہ اعلان کر کے دادا ٹرمپ کے دل پر خوب بجلیاں گرائیں۔ اعلان کے موقع پر جورجین واٹن فریڈنس کا کہنا تھا کہ ماریہ کورینا مچاڈو کو یہ انعام ان کی جمہوریت، انسانی آزادی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے جاری جدوجہد کے اعتراف میں دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مچاڈو کی تحریک نے وینزویلا سمیت پورے لاطینی امریکا میں جمہوری اقدار کو ازسرِنو بیدار کیا ہے۔ ویسے محترمہ نے ٹرمپ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یہ اعزاز سب کے لئے بشمول ٹرمپ ایک اعزاز قرار دینے کی کوشش ضرور کی ہے، لیکن محترمہ مچاڈو یہ نہیں جانتیں کہ انعام پر اپنا نام کنندہ دیکھنے کا نشہ ہی الگ ہوتا ہے۔
اب ٹرمپ کو سیخ پا کر کے الفریڈ نوبل کی روح بھی بے چین پھر رہی ہے، کیونکہ دادا جس کام کو سر کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس کو کئے بنا ان کو چین کی نیند نہیں آتی۔ سو اب 2026 کے نوبل انعام برائے امن کے حصول کے لئے دادا ٹرمپ مزید دنیا میں کیا کیا انقلابات لانے کی کوششیں کریں گے، یہ سوچنا ناممکن ہے، کیونکہ ٹرمپ وہ کچھ کر جاتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان سے بھی دور ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے جیوری کے اس فیصلے کو سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے، اور اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے، لیکن ناراضگی سے نوبل اس سال تو ملنے سے رہا۔ اب امید ہی کی جا سکتی ہے کہ دادا ٹرمپ کے اگلے سال تک کے دنیا میں امن قائم کرنے کے فیصلے اتنی واہ واہ لینے میں کامیاب ہو جائیں، کہ الفریڈ نوبل کی روح خود جیوری اراکین کے خواب میں آ کر انہیں دادا ٹرمپ کو ایوارڈ دینے پر قائل کر سکے، کیونکہ ابھی تک دادا ٹرمپ پیار سے نوبل مانگ رہے ہیں، اگر انہوں نے دادا گیری سے مانگ لیا تو نوبل انعام کی جیوری والوں کو سو پیاز اور سو جوتے کھانے کے بعد انعام دینا پڑ سکتا ہے۔
ٹرمپ خود کو امریکہ کے ان مہان صدور کی فہرست میں دیکھنا چاہتے ہیں، جنہوں نے امن کا نوبل انعام حاصل کر کے شہرت دوام حاصل کی ہے۔ اب ان سب نے بھی امن کا یہ نوبل انعام کیسے حاصل کیا تھا، یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ نوبل انعام کی جیوری والے اتنے بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں، جتنا وہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب اگلے سال تک پھر سب محو انتظار ہیں کہ ڈونلڈ جان ٹرمپ کی خواہش پایہ تکمیل ہوتی ہے، یا دادا کو داداگیری کے ذریعے ہی یہ نوبل انعام حاصل کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں اراکین جیوری peace انعام دینے سے پہلے کہیں piece میں نہ نظر آنے لگیں ۔
Leave a Reply