تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
نوجوان نسل کسی بھی ملک اور قوم کا اثاثہ اور سرمایہ ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے بہتر انداز اور اسلوب سے ان کی طرز زندگی میں ایک انقلاب آفریں کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے۔عصر نو کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ نوجوان نسل میں احساس پیدا کرنے کی سعی کی جاۓ اور جذبات کو مثبت طرز میں پروان چڑھانے کی کوشش کی جاۓ۔جذبے حیات انسانی کی بنیاد ہوتے ہیں اور تعمیر سیرت و کردار میں نگینے کی حیثیت شمار ہوتے ہیں۔نوجوان نسل کا تعمیری رویہ اور کردار استحکام معاشرہ میں اہم کردار تصور ہوتا ہے۔اس ضمن میں علم کی شمع روشن کرنے اور اچھے رویے تبھی پیدا ہوتے ہیں جب اساتذہ٬والدین اور سماج مل کر بہترین ماحول پیدا کریں جس سے قوم کے معماران کی شخصیت و کردار بہتر ہو بلکہ طرز زندگی میں بھی ایک تبدیلی رونما ہو۔تاریخ اسلام کی ورق گردانی کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ آخری پیغمبر حضرت محمدؐ کی ہستی میں انسانیت کی خیر خواہی کی خوبی بھی نمایاں تھی ۔اس کے مطابق جب نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاۓ تو بہت اچھے اثرات پیدا ہوتے ہیں۔بچوں کی مثال تو پھولوں کی سی ہوتی ہے جن کے رنگ ہوتے ہیں جدا جدا یعنی انفرادی اختلافات بھی ان میں پاۓ جاتے ہیں۔اس لیے نفسیاتی طور پر بھی ان کی ہستیوں کو سمجھنے اور ان کے مزاج کے مطابق تربیت کا اہتمام کیا جاۓ۔بچے چونکہ قول کے سچے ہوتے ہیں۔اس لیے ان کی تعلیم وتربیت ایسے خطوط پر کی جاۓ جن سے ان کے رویہ و کردار میں مثالی تبدیلی رونما ہو اور نہ صرف اپنی ذات کے لیے بلکہ سماج اور معاشرہ کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے بھی قوم کے معماروں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کو یہ بھی احساس دلانے کی ضرورت ہے بقول شاعر:-
اٹھ کہ ظلمت ہوٸی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نواٸی سے اجالا کر دیں
اس بات پر سب متفق بھی ہیں کہ تعلیم ہی وہ روشنی ہے جس سے تاریک راتوں میں اجالا پیدا ہوتا ہے۔نیا زمانہ ٬نٸے صبح و شام پیدا کرنے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔اس ضمن میں ایک شاعر نے بہت خوبصورت بات کہ دی
صحرا کا سلگتا ہوا احساس ہوں جامیؔ
ذروں کی طرح دہر میں بکھرا ہوا تن ہوں
زندگی کے تقاضے یہی ہیں کہ اچھے رویوں سے سماج کے اندر ایک خوشگوار احساس کو فروغ دیا جاۓ۔نوجوان نسل کو یہ احساس بھی دلایا جاۓ کہ والدین سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا کامیابی کی کلید ہے۔یہ احساس بھی دلایا جاۓ کہ حسن کلام کی خوشبو سے دل مہکتے ہیں۔امید اور آس کی بیل منڈھے چڑھتی ہے۔زندگی کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ بامقصد اقدار اور اخلاقی روایات نوجوان نسل میں پیدا ہوں ۔آج معاشرے اور سماج میں مثبت سوچ اور فکر کے زاویے پروان چڑھانے کے لیے نوجوان نسل کے کردار کی ضرورت ہے۔اداس لفظوں کے احساس میں مسکراہٹ کے پھول ہی زندگی کا پیام ہوتے ہیں۔کتنے لوگ اس بات پر غمگین ہوتے ہیں کہ انہیں سماج اور معاشرہ میں محبت نہیں ملتی اور اکثر خود غرضی کے خول میں ہی زندہ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔علم کی روشنی ہی تو ایسی قوت ہے جس سے فکروشعور کے پیمانے فروغ پاتے ہیں اور زندگی کی کونپل کو مسکرانے کا موقع ملتا ہے۔شجر زندگی کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے شیریں گفتاری اور میٹھے بول بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ان کی چمک سے ہی زندگی کے شگفتہ پھول کی دلکشی اور بھی نکھرتی ہے۔نفرت کی بجاۓ محبت کی راہ زندہ رہنے کے لیے بہت اہم ہے۔اگر نوجوان نسل خواب غفلت سے بیدار ہو جاۓ تو بہت مثبت تبدیلی کی ہواٸیں چلنے سے سکون اور اطمینان کی فضا پیدا ہوتی ہے۔والدین اور بچوں کے درمیان مضبوط رشتوں کی ضرورت ہے۔اسلامی فلاحی معاشرہ کا تصور بھی علم کے نور سے معمور ہوتا ہے۔یہ بات قوم کے نونہالان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ احساس جرم کی دلدل میں زندہ رہنے سے نقوش زندگی مٹ جاتے ہیں۔اللہ کریم بھی کسی معاشرہ اور سماج کے حالات اسی وقت تبدیل کرتے ہیں جب تمنا دلوں میں پیدا ہو۔نوجوان نسل کی مثالی تعلیم و تربیت وقت تقاضا ہے۔اس سے رونق حیات دوبالا ہوتی ہے۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے بہت خوب صورت انداز سے ایک شعر میں نوجوان نسل کو پیغام دیا
عقابی روح جب بیدار ہوتی جوانوں میں
نظر ان کو آتی ہے اپنی منزل آسمانوں میں
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply