rki.news
حریر: شازیہ عالم شازی
ہر سال 14 نومبر کو دنیا بھر میں “ذیابیطس کا عالمی دن” منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس تیزی سے پھیلنے والی بیماری کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ یہ دن صرف ایک یاد دہانی نہیں بلکہ ایک اجتماعی پکار ہے کہ ہم اپنی طرزِ زندگی، خوراک اور صحت کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں
ذیابیطس اب ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے، مگر پاکستان میں اس کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (IDF) کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اندازاً چار میں سے ایک پاکستانی اس مرض میں مبتلا ہے، جبکہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں اپنی بیماری کا علم ہی نہیں۔ دیہی علاقوں میں تو تشخیص کی کمی کے باعث صورتحال مزید خراب ہے۔
ذیابیطس کی سب سے بڑی وجوہات میں غیر متوازن خوراک، جسمانی سرگرمیوں کی کمی، ذہنی دباؤ، موٹاپا، اور موروثی عوامل شامل ہیں۔ ہمارے شہروں میں تیزی سے بڑھتا ہوا فاسٹ فوڈ کلچر، میٹھے مشروبات اور غیر فعال طرزِ زندگی نے اس مرض کو عام کر دیا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں میں ذیابیطس کی شرح بڑھنا ایک نیا اور خطرناک رجحان ہے، جو مستقبل کے لیے صحت کا بحران بن سکتا ہے۔
پاکستان میں ذیابیطس کے علاج اور آگاہی کے لیے اقدامات اگرچہ موجود ہیں، لیکن ان کی رسائی اور تسلسل ناکافی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں انسولین اور دیگر ادویات کی قلت، مریضوں کی رہنمائی کے فقدان، اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی کمزوری کے باعث اکثر مریض مناسب علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دیہی سطح پر تو یہ سہولتیں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ذیابیطس کے خلاف قومی سطح پر مربوط پالیسی بنائی جائے۔ اسکولوں، دفاتر اور میڈیا کے ذریعے صحت مند طرزِ زندگی کی آگاہی عام کی جائے۔ عوام کو بتایا جائے کہ ذیابیطس صرف شوگر لیول کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دل، گردے، آنکھوں اور اعصاب تک کو متاثر کرنے والی خطرناک بیماری ہے۔
اگر ہم نے ابھی سے احتیاط اور آگاہی کو اپنی زندگی کا حصہ نہ بنایا، تو آنے والے برسوں میں پاکستان کو نہ صرف صحت بلکہ معیشت کے میدان میں بھی شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ذیابیطس کا عالمی دن ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ صحت محض علاج سے نہیں، آگاہی اور ذمہ دارانہ طرزِ زندگی سے ممکن ہے۔ یہی پیغام آج ہر پاکستانی کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے
Leave a Reply