rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
لڑکی اتنی خوبصورت تھی، کہ شاید لفظوں کی مالا بھی اس کے حسن بلا خیز کی. جولانیوں کا احاطہ کرنے میں ناکام ہو جاے، بنانے والے کا ہنر اور کاریگری تو دیکھیے، اس نے. کتنی فرصت، فراست اور نفاست سے نیہا کے نی نقش، رنگ روپ، چال ڈھال اور انداز و اطوار بناے تھے کہ دیکھنے والا کاریگر کی کاریگری پہ تو عش عش کرتا ہی،. نیہا کے حسن کا گرویدہ بھی ہو جاتا،اور نیہا سیدھی سادی، اپنے حسن بے پروا سے بے نیاز، اپنے چھوٹے سے گھر میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ امن سکون کی زندگی گزار رہی تھی،لیکن کبھی کبھی ہمارا امن سکون سے رہنا بھی ہماری اپنی ہی ذات کے لیے آزمائش بن جاتا ہے، ہم اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ امن سکون کہاں تھا اور کہاں چل دیا، تو اس حسن کی دیوی کا نام شالے ناز تھا، جو اپنے دو بھائیوں اور والدین کے ساتھ اندرون لاہور کے ایک چھوٹے سے گھر میں کسمپرسی کے عالم میں بھی بڑی خوشحالی سے جی رہی تھی. سولہ سالہ شالے شان سے جیتی تھی، والدین ہی نہیں بھائیوں اور بھابیوں کی آنکھ کا تارا شالے آنے والے وقت کی سنگینی سے بے پروا خوشیوں کے ہنڈولے میں خوش تھی، دور پار کے کسی رشتے دار کی فوتگی میں جانے والے شالے کے والدین ایک روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ میں جان کی بازی ہار گئے،، شالے کے تو مانو سر پہ قیامت ہی ٹوٹ پڑی، سولہ سالہ بچی ٹکر ٹکر مرے ہوے والدین کی گھر سے رخصتی کو دیکھتے دیکھتے گویا پتھر کی ہو چکی تھی، بھای اور بھابیاں والدین کی حیاتی میں تو شالے کی ناز برداریاں کرتے تھکتے نہ تھے مگر جونہی والدین نے آنکھیں موند لیں تو بھائیوں اور بالخصوص بھابیوں نے اپنی اصل شکلیں دکھانے میں ایک پل کی بھی دیر نہ کی، بھائیوں کو پٹی پڑھا کے اکلوتی اور نا بالغ بہن کو بڑی کہنہ مشقی سے باقاعدہ لکھت پڑھت کر کے بالغ بہن کو بالا ہی بالا وراثت سے محروم کر دیا گیا.آ گءی نہ شالے ظالم زمانے کی زد پہ، گھر سے بے گھر ہوی، دھکے کھا کے میٹرک کیا اور پھر بڑی سفارشوں سے ایک بڑے آفس میں پرسنل سیکرٹری کی جاب پہ بھرتی ہو گءی، حسن بلا خیز کی مالک شالے جب دنیا کے رحم و کرم پہ آ گءی،تو اسے آٹے دال کا بھاو تو معلوم ہوا سو ہوا عزت بچانے کے بھی لالے پڑ گیے، وہ اس طرح کہ گھر کی شریف زادی والدین کی یتیم بیٹی جب اپنا سب کچھ ماں جایوں کو دان کر کے روزی روٹی کمانے کے لیے ایک امیر زادے کی پرسنل سیکرٹری بنتی ہے تو شادی شادی دو بچوں کے عیاش امیر زادے حسن آریان نے حسب معمول ایک ٹکٹ میں دو مزے کرنے کے چکر میں شالے پہ پہلے اپنی محبت کا جال پھینکا، مچھلی جال میں نہ پھنس سکی تو پھر اس کملی حسن زادی کو شادی حسین چنگل کا سندیسہ دیا جاتا ہے، شالے راضی ہو جاتی ہے مگر جب حسن آریان نے کمسن شالے سے یہ کہا کہ شادی تو میں تم سے کرنے کے لیے دل و جان سے تیار ہوں مگر چونکہ میری صرف بیوی ہی نہیں بلکہ دو بچے بھی ہیں تو میں تمہیں دنیا کے سامنے تو اپنی بیوی کا رتبہ دینے سے رہا ہاں نکاح خفیہ ہی ہو گا اور خفیہ ہی رہے گا کیونکہ میری پہلی بیوی جو کہ ایک ایم این اے کی بیوی ہے میری اس ناقابل معافی حرکت بلکہ دل پشوری پہ نہ صرف مجھے بچوں سمیت چھوڑ جاے گی بلکہ میرے مستقبل سے بھی کھلوار کر جاے گی. لہذا چونکہ میرا دل آپ ہی کے لیے دھڑکتا ہے، میری پہلی اور آخری محبت آپ ہی ہیں لہذا میں آپ کو شرعی طریقے سے حاصل کیے بنا رہ نہیں سکتا، لہذا میری استدعا مان لیجیے کہ ہمارا نکاح تو ہو گا آپ کو ساری مراعات میری پہلی بیوی سے بھی زیادہ ملیں گی مگر نکاح خفیہ ہی ہو گا.
مجھے ایک بہت بڑی گلوکارہ کا قصہ یاد آ گیا جب ان کی بادشاہ وقت کو ان کی خوبصورت اکلوتی بیٹی سے خفیہ نکاح کی درخواست کی تو گلوکارہ نے کیا ہی خوبصورت جواب دیا تھا، بادشاہ سلامت بھلا نکاح بھی خفیہ ہوتا ہے، نکاح تو اعلان ہے، خوشی کا کہ دو بالغ افراد نے زندگی گزارنے کے لیے ہنسی خوشی ایک دوسرے کو چن لیا ہے، نکاح کے گواہ ہوتے ہیں، شرائط ہوتی ہیں، معجل یا غیر معجل حق مہر ہوتا ہے مگر نکاح خفیہ نہیں ہوتا، سوچیے گا، غور فرمائیے گا تو شالے نے اس جھوٹ کے جہان پہ لات مار کے اپنے ماموں زاد سے علی الاعلان نکاح کر کے عزت کی لاج رکھ لی. سچ کہہ رہی ہوں نکاح خفیہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Leave a Reply