rki.news
تحریر: طارق محمود
میرج کنسلٹنٹ
ایکسپرٹ میرج بیورو
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
“بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے زیادہ آسان ہو” (سنن ابو داؤد: 2117)
یہ الفاظ دراصل امت کے لیے روشنی کا مینار ہیں، مگر افسوس کہ ہم نے اس چراغ کو خود اپنے ہاتھوں سے بجھا دیا۔
دکھاوے کے چکر میں پھنسا معاشرہ
آج نکاح محض عبادت یا سماجی ضرورت نہیں رہا، بلکہ ایک “پریسٹیج شو” بن چکا ہے۔ شادی کے کارڈ سے لے کر بارات کے اسٹیج تک، ہر شے میں نمود و نمائش جھلکتی ہے۔ مہنگے لباس، ڈیکوریشنز اور فوٹوگرافی کے پیکجز نے نکاح کو ایک کاروباری تقریب بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بیٹیوں کے نکاح کو خوشی نہیں بلکہ بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔
معاشی دباؤ اور تاخیرِ نکاح
جہیز کی فرمائشیں اور شادی کے غیر ضروری اخراجات والدین کے لیے کڑا امتحان ہیں۔ متوسط گھرانے اپنی عزت اور رواج کی پاسداری کے چکر میں قرضوں تلے دب جاتے ہیں۔ غریب والدین تو اپنی بیٹیوں کے نکاح میں سالہا سال تاخیر پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس تاخیر کے نتائج پورا معاشرہ بھگت رہا ہے: نوجوان نسل ذہنی دباؤ، اخلاقی زوال اور غیر صحت مند تعلقات کا شکار ہو رہی ہے۔
شادی انڈسٹری: معیشت یا لعنت؟
پاکستان میں شادی اب ایک بڑی “انڈسٹری” ہے۔ میرج ہالز، ڈیزائنر ڈریسز، میک اپ اسٹوڈیوز، ڈیکوریشن کمپنیاں اور فوڈ کیٹرنگ سروسز نے لاکھوں اربوں کا کاروبار کھڑا کر لیا ہے۔ بظاہر یہ معیشت کے پہیے کو چلا رہی ہے، مگر حقیقت میں یہ معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ جب ایک دینی فریضہ تجارتی منڈی میں بدل جائے تو وہاں برکت نہیں رہتی، صرف دکھاوا اور بگاڑ باقی رہتا ہے۔
سادہ نکاح: بوجھ نہیں، برکت ہے
اسلام کا پیغام واضح ہے: نکاح کو آسان بناؤ۔ سادہ نکاح نہ صرف والدین کے مالی بوجھ کو کم کرتا ہے بلکہ معاشرے میں برابری اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور دینی حکم بھی۔ اگر ہم اس طرف لوٹ آئیں تو نوجوان نسل بروقت اور باعزت طریقے سے اپنے گھر بسا سکے گی۔
نتیجہ
پاکستان کے زوال پذیر معاشرے نے نکاح کی اصل روح کو جھٹلا کر خود کو دکھاوے اور مصنوعی رواجوں کے جال میں جکڑ لیا ہے۔ اگر ہم نے اس روش کو نہ بدلا تو آنے والی نسلیں مزید مشکلات اور گناہوں کی دلدل میں پھنس جائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نکاح کو پھر سے وہی مقام دیا جائے جو رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا: سادگی، آسانی اور برکت کے ساتھ۔
Leave a Reply