Today ePaper
Rahbar e Kisan International

نہرسویز کی اہمیت

Articles , Snippets , / Sunday, May 25th, 2025

rki.news

نہر سویز مصر کی ایک سمندری گزرگاہ ہےاورمحل وقوع کے لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔یہ ایک مصنوعی آبی گزرگاہ ہےاور اس کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔روایات کے مطابق فرعون کے دور(1877_1849)میں اس کی کھدائی کی گئی اور بعد میں 1869 میں اس کو نئی شکل دے دی گئی،جس سے اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔نہر سویزبحیرہ احمرکوبحیرہ روم سےملاتی ہےاور عالمی تجارت کے لحاظ سےایک اہم حیثیت اختیار کر چکی ہے۔عالمی تجارت کا 8 فیصد سے لے کر 12 فیصد کے درمیان تجارتی سامان نہر سویز پر سے گزرتا ہےاور اس سے مصر کو کافی معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے۔اس نہر کی بدولت بحری جہاز افریقہ کے گرد چکر لگائے بغیریورپ اور ایشیا کےدرمیان آمدورفت کر سکتے ہیں۔اس نہر کے ذریعےتیل کی تجارت بھی ہوتی ہے اور یورپ کو جانے والا تقریبا 80 فیصد تیل اس کے ذریعے جاتا ہے۔تیل کے علاوہ این ایل جی اور دیگر سامان بھی اس نہر کے ذریعےبھیجا جاتا ہے۔1869ءمءں جب اس کی جدید طریقے سے تشکیل کی گئی تو صرف انگلینڈاور ہندوستان کا فاصلہ چار ہزار میل کم ہو گیا۔پہلے اس پر برطانیہ،امریکہ اور فرانس کا قبضہ تھا،مگر1956ء میں جمال عبدالناصر نےاس کو قومی ملکیت میں لے لیا۔مصر کے علاقے سے گزرنے والی نہر مصرکی ملکیت ہی ہےاور اس نہر کے ذریعے جو بھی آمدنی حاصل ہوتی ہے،اس آمدنی کا مالک مصر ہی ہے۔جمال عبدالناصر نےجب نہر سویز کو قومی ملکیت میں لیا تواسرائیل وغیرہ نےمصر پر حملہ کر دیا۔جنگ رکنے کے بعد 1973 تک مصر نے نہر سویز پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
نہر سویزایک ایسی سونے کی چڑیا ہے جس کو ہر ایک حاصل کرنا چاہتا ہے۔امریکی صدر نے بھی گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ پانامہ اور نہر سویز پرامریکہ کےتجارتی اور فوجی جہاز مفت گزرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے صرف نہر پانامہ پر کنٹرول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا،بعد میں نہر سویز کو بھی نگاہ میں رکھ لیا۔ٹرمپ کا نہر سویز کے بارے میں اعلان سن کرمصری حکومت سمیت عوام میں سخت اشتعال پھیل گیا۔حکومتی سطح پر امریکہ کو سخت قسم کا جواب دینے سے گریز کیا گیا،اس سے علم ہوتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں مصر اتنا کمزور ہے کہ اس کو جواب دینے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔دوسری طرف پانامہ گورنمنٹ نےسخت احتجاج بھی کیا تھا اور پانامہ نہر نہ دینے کا بھی اعلان کیا تھا،لیکن مصر کی خاموشی حیرت ناک ہے۔کئی قسم کے تجارتی اور جنگی جہاز نہر سویز پر گزرتے رہتے ہیں اور ان کا فاصلہ کم ہونے کی وجہ سےاخراجات بھی کم ہو جاتے ہیں۔نہر سویز پر گزرنے والےجہازوں سے مصر کو آمدنی حاصل ہوتی ہے۔مصر کسی صورت میں بھی نہر سویزسے دستبردار ہونا نہیں چاہے گا کیونکہ نہر سویز سے دست برداری کا مطلب ہے کہ دولت کا ایک اہم ذریعہ چھوڑ دیا جائے۔یہ ہو سکتا ہے کہ مصر کو اتنا مجبور کر دیا جائے کہ وہ نہر سویز کا کنٹرول چھوڑنے پرآمادہ ہو جائے۔امریکہ یاکوئی اور طاقت یوکرین کی طرح مصرکومجبور کر سکتی ہےکہ اس نہرکا کنٹرول چھوڑ دے۔اسرائیل یا کوئی اور ملک مصر کے ساتھ جنگ بھی چھیڑ کر امریکہ یا کسی بڑی طاقت کے لیے راستہ ہموار کر سکتا ہے۔یوکرین جس طرح مجبور ہو کر معاہدہ کرنے پر آمادہ ہوا،اسی طرح مصر بھی اپنی دولت کا بڑا حصہ کسی دوسرے کو دینے پرآمادہ ہو سکتا ہے۔
نہر سویز کے ذریعے مصر کو بہت بڑی آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں نہر سویز کی امدنی 5310ملین ڈالر تھی اور 21-22 میں سالانہ(سات)7 بلین ڈالر سے زیادہ آمدنی مصر کو حاصل ہوئی۔یہ ایک ریکارڈ آمدنی تھی اور آنے والے دور میں اس سے زیادہ امدنی حاصل ہونے کی توقع ہے۔سات بلین ڈالر کی آمدنی ایک غیر معمولی رقم ہےاور اس سے دستبردار ہونا مصر کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔امریکہ مصر پرپہلے دباؤ ڈال کر جہازوں کو مفت گزرنے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے،بعد میں مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا بھی خواہش مند ہو سکتا ہے۔اگر مصر امریکہ کوکوئی رعایت دینے میں آمادگی کا اظہار کرتا ہےتو دوسری ریاستیں بھی اس قسم کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نےپچھلے ماہ اپریل میں نہر سویز کا ذکر کیا تھا،اب کوئی ہلچل نظر نہیں آتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آئندہ ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا۔امریکی صدر طاقت کے ذریعے بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے کہ ایک آزاد ریاست سےزبردستی بات منوائی جائے،لیکن مصر اپنی کمزوری سے اچھی طرح آگاہ ہے۔مصرکو مجبورا ناگوار شرائط تسلیم کرنا پڑیں گی۔سوال یہ ہے کہ کیا مصر کسی طاقت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ماضی میں مقابلہ ہوتا رہا ہے لیکن حال میں بہت تبدیلیاں ہو چکی ہیں،اس لیے ماضی اور حال کے مصر میں بڑا فرق ہے۔مشرق وسطی کی حالت انتہائی بگڑی ہوئی ہے اور مصر بھی کسی وقت نشانے پرآ سکتا ہے۔مصر کی عالمی برادری حمایت کرےتاکہ انتشار نہ پھیل سکے۔مصر کے علاوہ کسی دوسرے کا نمبر بھی آ سکتا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ متحد ہو کرمقابلہ کیا جائے۔امت مسلمہ میں پائی جانے والی نااتفاقی مسلسل خسارے کا سبب بن رہی ہے لہذا امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔نہر سویزکا مسئلہ ہو یا کوئی دوسرا مسئلہ،فوری طور پر متحدہو کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔نہر سویز ایک آبی گزرگاہ ہونے کے علاوہ مستقبل میں جنگی جہازوں کا ایک راستہ بھی بن سکتی ہے،لہذا اس کی اہمیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔فضائی دور ہونے کے باوجود بھی آبی گزرگاہ کی بھی خاص اہمیت ہے۔نہر سویز مصر کی ہے اور مصر کےہی زیر کنٹرول رہنی چاہیے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International