رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اے رضوان امت محمدی کے روزہ داروں کے لیے جنت کے دروازے کھول دو اور خرابی پیدا کرنے والے چھوٹے بڑے شیطانوں کو سمندر کی گہرائیوں میں پھینک دو. اس سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ رمضان المبارک کے با برکت مہینے میں خیر اور شرانسان کے اپنے ہی اختیار میں رہ جاتا ہے رمضان کے مہینے میں ثواب سمیٹنے والے تو جا بجا نظر آتے ہیں روزہ رکھ کر
فرضی نفلی نمازیں پڑھ کر
قرآن پاک کی تلاوت کر کے
صدقہ خیرات کر کے
افطاریاں کروَا کے
حقداروں اور ضرورت مندوں کو زکوۃ دے کر
نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کر کے
اور کچھ لوگ تو ایسے خوش نصیب ہیں کہ وہ رمضان المبارک میں عمرے کی سعادت سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں کہ وہ رب کے اتنے قریب اور رسول عربی کو اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ انہیں مکہ اور مدینہ کی گلیاں سندیسے دے دے کے بلاتی ہیں اور کچھ ایسے حرماں نصیب کہ ان کی بھری ہوی تجوریاں بھی ان کے سوے ہوے بھاگ جگانے سے قاصر رہتی ہیں. کچھ لوگ اپنے روزمرہ کے کام کاج چھوڑ کر صرف اور صرف روزے کی سحری اور افطاری کے اہتمام میں جتے رہتے ہیں اور کچھ ایسے خوش نصیب ہیں کہ وہ اپنی روزی روٹی کے دھندے بھی روزے کے ساتھ ساتھ بخیر و خوبی نبھا لیتے ہیں اور میری ذاتی رائے میں ایسے ہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں جو دین اور دنیا دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں.
انسانی جسم کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ جنس کی دستیابی بھی انتہائی ضروری ہے. اسی لیے مسلمانوں کو بلوغت تک پہنچنے پہ نکاح جیسی سعادت کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں پھیلی جانے والی بے راہ روی اور بے حیائی کا قلع قمع ہو سکے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا قوم لوط کو ان کی جنسی بے راہ روی کی بنا پہ ہلاک کیا گیا تھا.
اللہ نے مٹی کے پتلے میں اپنی روح پھونک کر معرض وجود میں لانے والے آدم اور آدم کی اولاد کی ہدایت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے علاوہ بے شمار ولی، درویش، قلندر بھیجے مگر اللہ جانے اس خاک کے پتلے کو کیوں ہمیشہ شیطان ہی کے پیچھے لگنے میں مزہ آیا ہدایت اور ہدایت یافتہ رستے دونوں کو ہی کھوٹا کرتے کرتے اپنے نامہ اعمال کو گناہوں کے عذاب سے بھرتا ہی چلا گیا.
جینے کے نام پہ روز میں مرتا گیا
گناہوں سے ناعمہ اعمال کو بھرتا گیا
صنم شاہ ایک سترہ سالہ معصوم سی بھولی بھالی لڑکی تھی بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پہ تھی سب سے چھوٹی تھی اور یہ بات بالکل بھی بتانے والی نہیں کہ چھوٹے ہونے کی بنا پہ گھر بھر کی لاڈلی تھی صنم دسویں کے پیپرز دے کے نانی کے گھر چھٹیاں گزارنے پہنچی ہوئی تھی جب اسے والدین کی حادثاتی فوتگی کی اطلاع مو صول ہوی اطلاع تھی کہ موت کا سندیسہ بڑے بھائیوں کا تو پتا نہیں صنم شاہ اپنے والدین کی موت کا سن کر ہی مر گءی تھی کیسے اس گھر میں وآپس جا پاے گی جہاں نہ مامتا کے لاڈ ہوں گے اور نہ ہی بابا کی محبتیں
.بھای تو مرد ذات کی بنا پہ بچ گیے صنم شاہ لڑکی ہونے کی بنا پہ قابو آ گءی جلدی میں اس کے لیے بر ڈھونڈ کے اگلے گھر کا کر دیا گیا. صنم شاہ کی گڑیاں اپنی گڈی کی راہ ہی دیکھتی رہ گییں.
گڑیوں سے کھیلتی ہوی گڑیا
اک نیے دیس کو روانہ ہوی
سالوں پہ سال یوں گزرنے لگے
زندگی شام پہ ٹھکانہ ہوی
بدبخت صنم شاہ کے سر سے والدین کا سایہ تو اٹھا سو اٹھا اسے سسرال اور شوہر بھی ایسے نامراد ملے کہ انہوں نے صنم شاہ کو کوئی پل سکون سے جینے نہ دیا اور بالآخر شادی کے دسویں مہینے جب وہ نو ماہ کی حاملہ تھی اور چند دنوں بعد ایک جیتے جاگتے وجود کو دنیا میں لانے والی تھی اس کے شوہر نے معمولی جھگڑے کو اس طرح بھڑکایا کہ اس کی ساس اور نندوں نے اسے ڈنڈے مار مار کر اس جہان سے اس جہان پہنچا دیا ایک نہیں دو جانوں کا خاتمہ کر دیا نہ ہی زمین پھٹی اور نہ ہی آسمان زمین پہ آ گرا بعد میں اس قاتل خاندان نے پیسے کے بل بوتے پہ اپنی اپنی جانیں بچا لیں مگر معصوم اور بے گناہ صنم شاہ تو اپنے بچے کے ساتھ ساتھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ناں.
ماریہ نامی ایک جوان لڑکی کو اسی رمضان کے با برکت مہینے میں اس کا بھائی گلا گھونٹ کے مار دیتا ہے اور اس کا باپ اس قاتل بیٹے کو باقاعدہ طور پر پانی پلاتا ہوا دکھائی دیتا ہے ویڈیو گھر کے ہی کسی فرد نے بنا کر وایرل کر دی ہے مگر نہ ہی زمین پھٹی نہ ہی آسمان گرا. اپنے ہی اپنی بیٹیوں کا گلا گھونٹنے لگے تو دوسروں سے رحم کی کیا امید.
روزوں ہی کے مہینے میں چند سال قبل مشہور قوال امجد صابری کا قتل کر دیا گیا تھا نہ ہی زمین پھٹی نہ ہی آسمان گرا تھا.
اللہ جانے لوگ، لوگوں کو ناحق قتل کیوں کرتے ہیں جب کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں واضع طور پہ فرمایا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان لی اس نے پوری انسانیت کی جان لی اور جس نے ایک شخص کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا.
قندیل بلوچ ایک بے باک ایکٹریس تھے اسے اس کے اپنوں نے دام کھرے کر کے غیرت کے نام پہ بلی چڑھا دیا نہ ہی زمین پھٹی نہ ہی آسمان گرا
زینب ایک معصوم چھ سالہ بچی تھی جسے ایک جنسی درندے نے ریپ کے بعد قتل کر دیا تھا مگر نہ ہی زمین پھٹی نہ ہی آسمان گرا ایسی اللہ جانے کتنی معصوم بچیاں اس طرح کے جنسی تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتار دی گییں اور حکومت اور ادارے گونگے کا گڑ کھا کے بیٹھے ریے.
ایک معصوم بچے کو اس کے مدرسے کے استاد نے جنسی زیادتی کے بعد بے رحمی سے اس کے گلے میں نالے سے پھندہ دے دیا نہ ہی زمین پھٹی نہ ہی آسمان گرا. کتنے غیر محفوظ معاشرے میں رہ ریے ہیں ہم لوگ جہاں نہ ہماری بیٹیاں محفوظ ہیں اور نہ ہی بیٹے. تو اب وہ وقت چکا ہے کہ ہم متفقہ طور پہ بچوں کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے والوں کو سر عام سزا دیں تاکہ ان جنسی درندوں کو تھوڑا تو ڈر خوف پیدا ہو.
زمانہ قبل از اسلام میں زندہ گاڑ دی جانے والی عورت آج بھی انتہائی نامساعد حالات سے گزر رہی ہے کبھی پسند کی شادی کرنے پہ طعنوں تشنوں کا سامنا کرتی ہے تو کبھی بیٹی پیدا کرنے کے جرم کا خمیازہ بھگتی ہے کبھی بے اولادی کی سزا بھگتتی ہے تو کبھی معاشرے کے مردوں کے ذہنی و جسمانی کا نشانہ بنتی ہے اور عورت پہ ہونے والے اور بچوں پہ ہونے والے اس ظلم پہ نہ تو زمین پھٹتی ہے نہ ہی آسمان گرتا ہے اور نہ اپنے انسانوں سے ستر ماوں سے بڑھ کر پیار کرنے والے کی رحمت جوش میں آتی ہے
اللہ پاک اس رمضان المبارک کے با برکت مہینے کے صدقے ہمیں گناہوں سے بچائے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com
Leave a Reply