rki.news
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان میں احتساب کے ادارے کا تصور قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی میں سامنے آیا، مگر قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام 1999ء میں فوجی دورِ حکومت میں عمل میں آیا، جس کا بنیادی مقصد بدعنوانی کے خلاف ایک مؤثر ادارہ قائم کرنا تھا۔ تاہم، نیب کا ماضی ہمیشہ سے تنازعات کا شکار رہا ہے۔ اسے بعض اوقات سیاسی انجینئرنگ، انتقامی کارروائیوں اور میڈیا ٹرائل کے الزامات کا سامنا رہا۔ مختلف ادوار میں چیئرمین نیب نے شفافیت، خود مختاری اور انصاف پر مبنی نظام لانے کے دعوے کیے، مگر عملی سطح پر نتائج اکثر متنازع ثابت ہوئے۔
اسی سلسلے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کا کہنا ہے کہ “اصول بنا لیا ہے کسی کی پگڑی نہیں اچھالیں گے” ان کی یہ بات نہ صرف ایک اخلاقی عہد ہے بلکہ نیب کی پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت بھی ہے۔
گذشتہ دنوں اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے مکالمے کے دوران چیئرمین نیب نذیر احمد نے واضح کیا کہ ادارے نے اصولی فیصلہ کیا ہے کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہیں کی جائے گی۔ ان کے مطابق نیب نے گزشتہ اڑھائی سال میں 8397 ارب روپے کی ریکارڈ ریکوری کی ہے، جو ادارے کی تاریخ میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے نیب کو مکمل طور پر پیپر لیس ادارہ بنانے، بے بنیاد شکایات کی حوصلہ شکنی کرنے اور غیر ضروری مقدمات سے بوجھ کم کرنے جیسے اصلاحاتی اقدامات کا ذکر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پارلیمان کی ترامیم کے بعد نیب اب صرف 50 کروڑ سے زائد کے قومی غبن پر کارروائی کرتا ہے تاکہ چھوٹے کاروباروں اور سرکاری ملازمین پر بلاوجہ دباؤ نہ ڈالا جائے۔ مزید برآں، چیئرمین نیب نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ادارہ خوف و ہراس نہیں بلکہ انصاف کے اصول کے تحت کام کرے گا۔
چیئرمین نیب کا یہ بیان بنیادی طور پر اخلاقی احتساب کے تصور کو اجاگر کرتا ہے۔ ماضی میں نیب کے دائرہ کار میں ایسے اقدامات شامل رہے جن میں میڈیا ٹرائل، قبل از وقت گرفتاری اور ذاتی شہرت کو نقصان پہنچانے والے بیانات عام تھے۔ اب اگر ادارہ واقعی یہ اصول اپنا لیتا ہے کہ کسی کی “پگڑی نہیں اچھالی جائے گی”، تو یہ احتسابی نظام کو انسانی عزت و وقار کے ساتھ جوڑنے کی مثبت پیش رفت ہوگی۔
نیب کا یہ بیان دراصل ریاستی اداروں کی اخلاقی تطہیر کی جانب ایک قدم ہے۔ احتساب کا مقصد صرف سزائیں دینا نہیں بلکہ نظامِ حکمرانی میں شفافیت، اعتماد اور خوف سے آزاد کارکردگی پیدا کرنا ہے۔
چیئرمین نیب نذیر احمد نے اپنی بات حقائق پر مبنی، باوقار اور تدبر کے ساتھ پیش کی ہے۔ ان کا خطاب محض بیانات کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک جامع پالیسی وژن تھا۔ وہ گفتگو کو اعداد و شمار، ادارہ جاتی اصلاحات اور بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں مربوط کرتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ “منی لانڈرنگ کی سہولت کاری کرپشن کی سب سے بھیانک صورت ہے” ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کی نشانی ہے، کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیب اب کرپشن کے مالی و بین الاقوامی نیٹ ورک کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اگر اس بیان کو محض ایک خبر نہیں بلکہ بیانیہ سمجھا جائے تو یہ ایک فکری موڑ کی نمائندگی کرتا ہے۔ “کسی کی پگڑی نہیں اچھالیں گے” محض جملہ ہی نہیں بلکہ انسانی وقار کی پاسداری کا اعلان بھی ہے۔ اس میں بہترین اخلاقیات کی جھلک ہے جو “ستر پوشی” کے اصول پر قائم ہے یعنی برائی کو بے نقاب کرنے سے زیادہ اس کی اصلاح پر زور دینا شامل ہے۔
نیب کا یہ بیان پاکستانی ریاستی اداروں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ احترام، توازن اور انصاف کے اصولوں کو بھی مقدم رکھا جائے۔
اگرچہ چیئرمین نیب کے یہ عزائم قابلِ تحسین ہیں، مگر تنقیدی طور پر دیکھا جائے تو اس پالیسی کے نفاذ میں کئی عملی چیلنجز بھی موجود ہیں۔
نیب کی ساکھ بحال کرنے کے لیے صرف بیانات کافی نہیں، بلکہ عدالتی شفافیت، غیر جانب داری اور سیاسی دباؤ سے مکمل آزادی درکار ہے۔
میڈیا ٹرائل کے خاتمے کے لیے واضح ضابطہ اخلاق وضع کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی زیرِ تفتیش شخص کی ساکھ متاثر نہ ہو۔
نیب کے اندرونی احتسابی نظام کو مضبوط بنانا ناگزیر ہے تاکہ کسی افسر کی بدانتظامی یا تعصب سے ادارے کا مقصد متاثر نہ ہو۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کا اعلان پاکستانی احتسابی تاریخ میں ایک مثبت اور امید افزا باب ہے۔ اگر نیب واقعی اپنے نئے اصول پر عمل پیرا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ادارے کی ساکھ بحال کرے گا بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی مضبوط بنائے گا۔
احتساب کا حقیقی مقصد بدعنوانی کا خاتمہ ضرور ہے، مگر اس کے ساتھ عزتِ نفس، شفافیت اور انسانیت کے اصولوں کی پاسداری بھی اتنی ہی اہم ہے۔ چیئرمین نیب کا یہ عہد اسی سمت کی علامت ہے۔
“پگڑی اچھالنے کے بجائے اصلاح کا راستہ اختیار کرنا” پاکستان میں احتساب کے فلسفے کو ایک نئے اخلاقی معیار تک پہنچا سکتا ہے۔ نیب کا یہ اعلان صرف نیب کے لیے ہی نہیں، بلکہ ریاستی نظم کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ طاقت کے ساتھ شرافت اور احتساب کے ساتھ احترام کو لازم و ملزوم سمجھا جائے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
Leave a Reply