rki.news
(تحریر: ثمینہ علی)
اسلامی تاریخ کا ایک ایسا دن جسے ہر سال درد، غم اور سبق آموز یادوں کے ساتھ منایا جاتا ہے، وہ 10 محرم الحرام 61 ہجری کا دن ہے، جب نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ نے میدانِ کربلا میں عظیم قربانی پیش کی۔ یہ واقعہ نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ پوری انسانی تاریخ کا وہ باب ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ امام حسینؓ نے اپنے 72 جانثاروں کے ساتھ جس اصول، کردار اور استقلال کا مظاہرہ کیا، وہ رہتی دنیا تک حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معیار بن گیا۔
خلافتِ راشدہ کے بعد اسلامی حکومت میں بتدریج سیاسی تغیرات آئے، یہاں تک کہ حضرت معاویہؓ کے بعد ان کے بیٹے یزید نے خلافت سنبھالی۔ یزید کی حکومت میں دینی اور اخلاقی اصولوں سے انحراف دیکھا گیا۔ امام حسینؓ، جو کہ رسولِ اکرم ﷺ کے نواسے تھے، نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اسے دین کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اُن کے نزدیک یزید جیسے فاسق شخص کی خلافت اسلام کی روح کے منافی تھی۔
امام حسینؓ کوفہ کے عوام کی دعوت پر مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ کوفہ کے لوگوں نے بیعت کے سینکڑوں خطوط بھیجے تھے، اور امامؓ کو یقین دلایا تھا کہ وہ اُن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ امام حسینؓ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا۔ مسلم بن عقیل کو ابتدائی طور پر حمایت ملی لیکن جب یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو گورنر مقرر کیا تو اس نے سختی سے حالات کو بدل دیا۔ مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا، اور امام حسینؓ کے حامیوں کو قید یا خوفزدہ کر کے منتشر کر دیا گیا۔
جب امام حسینؓ کو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تو وہ پہلے ہی کوفہ کی حدود کے قریب کربلا پہنچ چکے تھے۔ یزیدی لشکر نے انہیں محصور کر لیا، پانی بند کر دیا، اور اُن پر دباؤ ڈالا کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں۔ امام حسینؓ نے کسی بھی مفاہمت سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ وہ ظلم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے، چاہے جان چلی جائے۔
10 محرم کے دن وہ عظیم معرکہ ہوا جس میں امام حسینؓ اور ان کے تمام رفقا نے جامِ شہادت نوش کیا۔ حضرت عباسؓ کی وفاداری، حضرت علی اکبرؓ کی جوانمردی، حضرت قاسمؓ کا جذبہ قربانی، اور شیر خوار حضرت علی اصغرؓ کی مظلومیت تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ آخرکار امام حسینؓ بھی شہید ہو گئے اور ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ اہلِ بیت کو قیدی بنا کر کوفہ اور شام کے درباروں میں پیش کیا گیا، جہاں حضرت زینبؓ اور حضرت امام زین العابدینؓ نے خطبات کے ذریعے یزید کے ظلم کو بے نقاب کیا۔
واقعۂ کربلا کی اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ صرف سیاسی یا فوجی معرکہ نہیں تھا، بلکہ ایک اخلاقی، دینی اور فکری تحریک تھی۔ امام حسینؓ نے یہ اعلان کیا کہ اگر ایسے حکمران امت کے رہنما بن جائیں جو دین کو پامال کریں، تو خاموش رہنا بھی جرم ہے۔ اُن کی قربانی نے اسلامی اقدار کو بچایا اور قیامت تک کے لیے یہ پیغام دے دیا کہ حق کے لیے کھڑا ہونا ہی اصل ایمان ہے۔
کربلا کے اثرات صرف اس وقت کے حالات تک محدود نہیں رہے۔ یہ واقعہ ہر دور کے مظلوم اور حق پرست انسانوں کے لیے روشنی کا مینار بنا۔ گاندھی سے لے کر نیلسن منڈیلا تک، کئی عالمی رہنماؤں نے امام حسینؓ کی استقامت اور قربانی سے حوصلہ لیا۔ امام حسینؓ کی شہادت نے ظلم کے خلاف جدوجہد کی ایک ایسی مثال قائم کی جو ہر زمانے کے لیے ایک معیار بن گئی۔
آج کے دور میں جب دنیا میں ظلم، ناانصافی اور طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کا رجحان بڑھ رہا ہے، کربلا کا پیغام اور بھی زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم امام حسینؓ کی سیرت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، سچائی، دیانت، انصاف اور قربانی جیسے اصولوں پر عمل کریں۔ یہی امام حسینؓ کا اصل پیغام ہے۔
واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک فکری انقلاب تھا۔ یہ ایک اخلاقی تحریک تھی جس نے ہمیں یہ سکھایا کہ دین کے تحفظ کے لیے قربانی دینا، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور حق پر ثابت قدم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ امام حسینؓ کا نام رہتی دنیا تک عزت، حریت اور حق کی علامت کے طور پر زندہ رہے گا، اور کربلا کا پیغام ہمیشہ تازہ رہے گا۔
Leave a Reply