Today ePaper
Rahbar e Kisan International

والد محترم لائق صد افتخار جناب منصور اعظمی – میری نظر میں

Articles , Snippets , / Sunday, July 20th, 2025

rki.news

بقلم: ڈاکٹر شبانہ نسرین بنت منصور اعظمی
مورخہ: 28 مئی 2024
وقت: دوپہر 1:45

محترم اہلِ قلم، ادب نواز شخصیات، اور شعر و سخن سے محبت رکھنے والے معزز قارئین!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

آج میں آپ کے روبرو جس شخصیت کا تذکرہ کرنے جا رہی ہوں، وہ محض میرے والد محترم ہی نہیں، بلکہ اردو ادب کی دنیا میں ایک معتبر اور منفرد مقام رکھنے والے شاعر ہیں، جنہیں دنیا منصور اعظمی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ان کے کلام میں مزدور کی محنت، دیہات کی سادگی، اور مشرقی تہذیب کی خوشبو ملتی ہے۔ مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ میں ان کی بیٹی ہوں، اور اُن کے علمی و فکری ورثے کی عینی گواہ بھی۔

تحریر کو شروع کرنے سے پہلے، اپنا مختصر تعارف پیش کرنا چاہتی ہوں۔ میرا نام ڈاکٹر شبانہ نسرین ہے، تعلق موضع اہیرولی جین پور اعظم گڑھ سے ہے۔ ابتدائی تعلیم مبارک پور میں حاصل کی اور بعد ازاں الہٰ آباد یونیورسٹی سے B.U.M.S کی تکمیل کی۔ پی ایچ ڈی کی خواہش مجھے قلم اور نثر نگاری کے میدان میں لے آئی ہے۔ اس راستے پر میرے قدم ابتدائی ہیں، اس لیے میں آپ سب اہلِ علم سے اصلاح اور رہنمائی کی طلبگار ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہوں، جس نے مجھے قلم کی دولت عطا کی اور اپنے دل کے جذبات صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کی توفیق دی۔

اب آئیے اس شخصیت کی طرف، جن کے بارے میں لکھنا میرے لیے فخر کا باعث ہے اور ساتھ ہی ایک ذمہ داری بھی۔
جناب منصور اعظمی کی ولادت یکم جولائی 1961 کو موضع سیہی، ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی۔ تعلیم کا آغاز گاؤں میں ہوا، اور میٹرک کی سند سٹھیاوں اعظم گڑھ سے حاصل کی۔ ان کے والد، حاجی جمعراتی صاحب مرحوم، اور والدہ، صفی النساء مرحومہ، دونوں کی دعاؤں اور تربیت نے اُن کی شخصیت کو سنوارا۔ شاعری کا ذوق اُنہیں اپنے والد اور بزرگوں سے ورثے میں ملا، کیونکہ اُن کے دادا بھی جراحت اور سخن فہمی میں معروف تھے۔

منصور اعظمی صاحب نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1975 میں کیا۔ ان کی پہلی تخلیقی کوشش برہا کی صورت میں سامنے آئی۔ تب سے آج تک وہ اپنے مخصوص ترنّم اور دلنشیں اسلوب کے ذریعے سننے والوں کو مسحور کرتے آ رہے ہیں۔ آج قطر کی سرزمین پر انہیں “مزدوروں کے شاعر” اور “احسان دانشِ دوحہ” جیسے اعزازات سے یاد کیا جاتا ہے، جو ان کی محنت اور خلوص کا اعتراف ہیں۔

ان کے علمی و ادبی سفر میں کئی اساتذہ کی رہنمائی شامل رہی۔ ہندی ادب میں ماسٹر چندر دیو یادو اور اردو ادب میں سید اخلاق احمد اور شہاب اعظمی انصاری جیسے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔ قرآن مجید کی تعلیم والدہ محترمہ سے حاصل کی۔ عروض اور فنونِ شاعری میں انہیں شمسی جہانگانجوی مرحوم، سید حیدر اعظمی مرحوم اور امجد علی سرور جیسے اساتذہ کی رہنمائی نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام محسنین کے درجات بلند فرمائے۔

منصور اعظمی صاحب کی زندگی میں نہ صرف وطن کے احباب شامل رہے بلکہ دیارِ غیر میں بھی انہوں نے اپنے حلقۂ احباب میں باصلاحیت اور مخلص افراد کو جگہ دی۔ دوحہ قطر میں رفیق شاد اکولوی عزیز نبیل، وصی الحق صاحب’ افتخار راغب،مولانا عامر شکیب ‘ جنابِ مظفر نایاب ‘ شہاب الدین، اشفاق دیش مکھ، اطہر اعظمی، راقم اعظمی اور جمشید انصاری جیسے احباب کے ساتھ ان کی محفلیں سجتی رہتی ہیں۔ پاکستان سے محمد ممتاز راشد لاہوری، شوکت علی ناز، فیصل حنیف صاحب’ قیصر مسعود صاحب اور طاہر جمیل جیسے شعراء کے ساتھ بھی علمی تعلقات ہیں۔ یہ ان کے ادبی دائرے کی وسعت کا ثبوت ہے۔

1989 سے وہ دوحہ، قطر میں مقیم ہیں، جبکہ اس سے قبل وہ ممبئی اور سعودی عرب میں بھی طویل عرصہ بسر کر چکے ہیں۔ ہر دو سال بعد چھ ماہ کے لیے وطن عزیز کا دورہ کرتے ہیں، جس سے ان کے وطن سے جڑے رشتے اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔

منصور اعظمی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں:
ایک قادرالکلام شاعر، مزدور طبقے کی آواز، دوستوں کے دوست، اور ہمارے لیے سراپا شفقت والد۔

میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، خوشیاں اور علم و ادب میں مزید بلندیاں عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔

ڈاکٹر شابانہ نسرین بنت منصور اعظمی


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International