تحریر اظہر ہاشمی
دو فوجی چیپیں تیزی سے وائی کنگ جہاز کی طرف بڑھی جا رہی تھیں، گرے رنگ کا جہاز اپنا منہ اٹھائے کھڑا تھا۔۔۔ اسکی کھڑکی سے پائلیٹ جھانک رہا تھا۔۔۔برگیڈئیر صالح نے جیب سے اترے اور جہاز کی طرف بڑھے جسے اب کمانڈوز نے گھیر لیا تھا اور کسی بھی سچوئشن کے لیے تیار تھے۔۔ فوجی گاڑیوں سے بڑی بڑیسرچ لائٹس آن ہو چکی تھیں۔۔۔۔ جس سے جہاز کا انچ انچ روشن تھا، برگیڈئیر صالح نے جہاز کے کاک پٹ کی طرف منہ اٹھا کہ پائیلٹ سے کہا۔۔ میں برگیڈئیر صالح ہوں میں اس جہاز کا پائیلٹ ہوں۔۔۔ یہ کون سی دُنیا ہے۔۔۔دُنیا ایک ہی ہے۔۔ تم کون ہے۔۔ اور یہ کیا مزاق ہے۔۔ مسٹر جناح کیسے ہو سکتے ہیں اس میں وہ۔۔ تو۔۔آپ خود ان سے مل لیں۔۔۔ پائیلٹ نے کہا۔۔۔ میں پسنجر گیٹ اوپن کرتا ہوں۔۔۔برگیڈئیر صالح اور جمال دونوں بھاگ کر پسنجر گییٹ کی طرف پہنچے۔۔۔ برگیڈئیر صالح کے وائرلیس پر آواز آنا شروع ہوئی سر اجنبی طیارے کی لینڈنگ کی خبر میڈیا تک پہنچ چکی ہے۔۔۔ اور سر یہ بھی بتا جا چکا ہے۔۔ کہ یہ کوئی دوسری جنگ عظیم کا جہاز ہے۔۔۔ اوکے۔۔ میں دیکھوں گا۔۔ کوشش کرو کہ یہ سب کچھ کیاس بنا رہے۔۔۔ رائٹ سر جہاز کا درواز کھل چکا تھا پائیلٹ دروازے پر کھڑا تھا۔۔۔ اس نے سیڑھیاں لگا دیں تھی جو دروازے میں ہی فٹ تھیں۔۔ برگیڈئیر نے پائیلٹ کو دیکھا۔۔۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔۔۔ کیا یہ ہندوستان کا کوئی شہر ہے؟ نہیں۔۔۔ یہ پاکستان ہے۔۔۔ یہ پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد ہے۔۔ پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ آج تاریخ کیا ہے آج سات اگست ہے، کیا میں اندر آ جاوٗں۔۔۔ جج جج جی ضرور پائیلٹ نے اندر کی طرف ہٹتے ہوئے کہا۔۔ برگیڈئیر نے اپنا پستول چیک کیا اور سیڑھیوں پر قدم رکھ دیا۔پاکستان نیوز چینل کے نیوز روم میں اس وقت ہلچل مچی ہوئی تھی۔۔۔ طاہر اقبال تمام ٹیبل پر ناچتا پھر رہا تھا، وہ نیوز ڈائرکٹر تھا، اس کے دنوں ہاتھ میں موبائیل تھے ایک موبائل جیب سے جھانک رہا تھا، وہ کبھی ایک موبائل کو سنا کبھی دوسرے کو۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنی ٹیم پر بھی چلا رہا تھا آرکائیو سے دوسری جنگ عظیم کی وڈیو دیکھو ان میں ہونا چاہیے یہ۔۔۔ تمہیں کس نے آرکائیو میں رکھا ہے۔۔ ابے اگر تمہارے پاس نہیں ہیں تو نیٹ چیک کرو، یوٹیوب دیکھو۔۔۔ وہ وہو۔۔۔ امریکہ کی آرکائیو لیبریری اب ساری آن لائین۔۔۔۔۔ سر وہ پیڈ ہے۔۔ ابے تو۔۔ تو نے پے منٹ کرنی ہے۔۔ سر فارمل اپرول تو۔۔۔ ہاں میں کرتا ہوں ہوں ایم ڈی سے۔۔ اوہ انہیں کا فون ہے۔۔ یس سر۔۔۔ سس سس۔۔ سسر۔۔ سر۔۔ جج جج جی سر مم۔۔ جج جج۔۔ جج سر۔۔ سر ہم نے ہی بریک کی ہے۔۔ سس سس سر آپ سر میڈم کے ساتھ تھے سر۔۔ سس سس سر۔۔جج جج جی سر۔۔ اوکے سر۔۔ اُف۔۔۔ اے سی کے باوجود طاہر اقبال۔۔۔ کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔۔۔ وہ روز اسی طرح ڈانٹ کھاتا تھا۔۔۔ اور اپنی ڈانٹ اپنی ٹیم کو پلا دیتا تھا۔۔۔ اب کھڑے مونہ کیا دیکھ رہے ہو۔۔ جاؤ۔۔ سر وہ اپروول۔۔ ہاں ہو گئی ہے۔۔ جاؤ اور جلدی سے بتاوء۔۔۔ ہاں ائیرپورٹ پر کون ہے۔۔۔ سر ریحانہ ہے۔۔اور بھٹی ہے او بی پر۔۔۔اور کیمرے کتنے ہیں۔۔۔ سر دو آؤٹ ڈور ہیں اور ایک سر وی وی اآئی پی روم میں ہے۔۔۔ مم مگر سر وہ چینی پی ایم تو چکلالہ میں آئیں گے۔۔ ادھر ٹیم کو موو کر دیں۔۔۔ نہیں۔۔ ادھر دوسری ٹیم بھیجھو یا سرکاری ٹی وی کی فیڈ لے لو۔۔۔ یہ نیوز ہماری ہونی چاہیے۔۔۔ بھٹی سے بات کراؤ۔۔۔ ڈیسک منیجر نے اپنے موبائیل سے ہی بھٹی کا نمبر ڈائیل کیا۔۔ طاہر اقبال کی نظریں دیوار پر لگے ٹی وی سے لگ گئیں جہاں مختلف اسکرینوں پر مختلف چینل آ رہے تھے۔۔۔ وہ ہنگامہ نیوز کی سکرین دیکھ کر چونک پڑا۔۔۔ جس پر بریکنگ نیوز چل پڑی تھی، بے نظیر ائیرپورٹ پر اترنے والا جہاز۔۔ قائد اعظم کا جہاز ہے۔۔۔اور ساتھ ہی کراچی میوزم میں رکھے ہوئے جہاز کی وڈیو دکھائی جانے لگی۔۔۔جس پر فائل وڈیو لکھا نظر آ رہا تھا۔۔ اور باتا جا رہا تھا کہ میوزم پر کمانڈوز کا پہرا لگا دیا گیا تھا۔۔۔ اور کسی کو بھی اندر داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا سر بھٹی سر۔۔۔ ہاں۔۔ طاہر نے چونک کر موبائل اسکے ہاتھ سے لے لیا۔۔ بھٹی کیا اب ڈیٹ ہیں۔۔۔ سر ہم نے جہاز کی فُٹیج بنا لی ہے۔۔۔ گُڈ۔۔۔ سر بھیج رہا ہوں۔۔۔ سر یہ جہاز اُس جہاز جیسا ہے جس میں قائد اعظم پاکستان آئے تھے۔۔ کیا واقع ہی۔۔ ہاں سر۔۔۔اور سر جہاز کی کھڑکیوں میں لوگ نظر آ رہے ہیں کمانڈوز نے جہاز کو گھیرا ہے۔۔۔ لوگوں کے چہرے نظر اآ رہے ہیں۔۔۔ سر فٹج بہت دور سے لی ہے۔۔۔ سر رییج میں نہیں ہیں۔۔۔ ایک فوجی افسر جہاز کے اندر گیا ہے۔۔۔ سر ہم نے یہ فتج اے ایس ایف کے آٍفس سے بنائی ہے،،، سر پچاس ہزار میں۔۔۔ اوہ ٹھیک۔۔ ہے۔۔۔ تمہیں پتہ ہے کہ۔۔۔۔سر یہ دیکھیں سر یہ تو۔۔۔۔ سر یہ قائد اعظم کے جہاز کی وڈیو ہے۔۔۔ ماڑی پور پر جب اس جہاز کی آمد ہوئی تھی۔۔ ایک ڈیسک رپورٹر نے اپنی اسکرین اسکی طرف کی اور دوسرے نے بھٹی کی بھیجی ہوئی وڈیو۔۔۔ جہاز ایک جیسے تھے دونوں اسکرینز پر مگر ایک بلیک اینڈ وائٹ وڈیو تھی۔۔۔ دوسری۔۔۔ کلر۔۔۔۔ بریک اٹ بریک اٹ۔۔۔ وہ ہسٹریائی انداز میں چیخا اور۔۔ کچھ دیر بعد ہی ہر ایک چینل نے اپنے پروگرام روک کر ایک ہی خبر لگانا شروع کر دی تھی۔۔کے جہاز کی اسلام اآباد ائیرپورٹ پر پرسرار لینڈنگ۔۔۔ اور کچھ ہی دیر بعد۔۔۔ ایک اور بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔۔۔ کراچی کے میوزیم سے قائد اعظم کا تاریخی جہاز غائب ہو گیا تھا۔۔۔۔ ریحانہ جوکہ پی این سی کی رپورٹر تھی اسکے حکومتی حلقوں میں وسیع تعلقات تھے خاص کر پی ایم کے اے ڈی سی فاخر سے تو اس کی بہت بنتی تھی، اسی لیے وہ اس وقت اس کا دم چھلہ بنی ہوئی تھی۔۔۔ جو پی ایم کو بتا رہا تھا کہ برگیڈئیر صالح جہاز کے اندر جا چکے ہیں اور اندر جاتے ہی انکے وائرلیس کے سگنل بند ہو گئے ہیں اور انکا موبائل بھی بند جا رہا ہے۔۔۔ پھر کسی اور کو اندر جانا چاہیے کیا جہاز کا دروازہ بند ہو گیا ہے، پی ایم نے پوچھا نن نہیں سر۔۔۔ کمانڈرز بتا رہے ہیں کہ اندر بہت روشنی ہے جس سے کچھ واضح نظر نہیں آ رہا۔۔۔ اسی لمحے فاخر کے موبائیل کی تھرتھراہٹ ہوئی۔۔۔ ہیلو۔۔۔ یس برگیڈئیر۔۔۔۔۔ سس سس۔۔ سر۔۔۔ برگیڈئیر صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ہاں مسٹر صالح۔۔ پی ایم ہئیرکک کیا کہ رہے ہیں آپ ایسا کیسے ممکن ہے؟پھر دوسری طرف کی سننے لگے۔۔۔ اوہ۔۔۔ کیا آپکو یقین ہے۔۔۔ یہ تو آپ جادونگری والی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔آپ کو کیسے یقین ہے کہ یہ وہ ہی ہیں۔۔۔تصویریں ستر سال پرانی ہیں مسٹر صالح۔۔۔ اور آپ اکیسویں صدی میں ہو۔۔۔۔دُنیا بہت جدید ہو چکی ہے۔۔۔ ہمارے دشمن ہر طرح کی چال چل سکتے ہیں۔۔۔۔ مجھے بھی یہ کوئی چال لگتی ہے، آپ کو پتہ ہی ہے کہ ان دنوں مغرب ہم سے بہت نالاں ہے۔ سائنس کی ترقی ایسے شعبدے دکھا سکتی ہے پی ایم کا لہجہ انتہائی مدبرانہ تھا ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔ ہم بلیک روم۔۔۔۔ چلتے ہیں۔۔۔۔ جاہل کہیں کا۔۔۔پتہ نہیں کیسے برگیڈئیر بن گیا۔۔۔ پی ایم بُڑبڑائے پی ایم نے فون فاخر کو دے دیا۔۔۔ بلیک روم کی طرف جانا ہو گا سر۔۔ کک کیا کہا انہوں نے، ریحانہ۔۔ نے پوچھا۔۔ اوہ آپ ادھر تھیں، فاخر مجھے یہ پسند نہیں کہ یہ باتیں میڈیا تک جائیں سس۔۔ سوری سر۔۔۔ مس ریحانہ۔۔۔آپ پلیز سچوئشن سمجھیں۔۔۔۔ دس وے سر۔۔۔ فاخر نے ریحانہ کو رکنے کا اشارہ کیا اور دونوں اسپیشل وے کی طرف چلے گئے۔
(دوسری قسط)
Leave a Reply