اظہر ہاشمی
ہمارے ہاں اب ایسی ٹیکنالوجی ہے، کہ آپ کی اس ساری بات کو ہر کوئی اپنی اپنی زبان میں سُن سکتا ہے محترم قائد، ہم نے آپ کا ایک خطاب رکھا ہے اس بریفنگ کے بعد، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے تاثرات قوم کے سامنے بیان کریں، وزیر اعظم نے موئدب لہجے میں کہا ٹھیک ہے، پروفیسر پھر کیا ہوا، ضیا کے دور کا اختتام کیسے ہوا سر، صدر ضیا کا طیارہ تباہ ہو گیا، اور وہ اور نکے بہت سے ساتھی مارے گئے اوہ میرے خدایا، کیا ہمارے ہاں حکمران مارے ہی جاتے رہے؟ بدقسمتی سے ایسا ہی ہے محترم قائد، ضیا کے بعد پھر سے جمہوری میوزیکل چئیر شو شروع ہوا، ایک حکومت آتی،گرا دی جاتی، ہم نے ضیا کے بعد دس سالوں میں آٹھ جمہوری حکومت کو دیکھا اور پھر میں جنرل مشرف نے تیسرا مارشل لا لگا دیا اوہ، یعنی پھر فوجی حکومت۔۔۔ جی سر، اور یہ حکومت بھی گیارہ سال رہی۔۔۔ یا خدا، میں نے پاکستان کو ایسا تو نہیں بنانا چاہا تھا جہاں لوگ اقتدار کی رسہ کشی کرتے رہیں، پھر تو عوام کے لیے کیا کیا ہو گا ان اقتدار کے حواریوں نے؟ میں نے تو بار بار کہا کہ حاکم عوام کے خادم ہوتے ہیں، اور تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ قوم بکھر گئی، ان میں ایمان نہیں رہا اور سب الگ الگ ہو گئے جی سر کچھ ایسا ہی ہوا ہے، ہم نے آپ کے فرمودات بھلا دیے، اب ہم میں نہ اتحاد ہے نہ تنظیم ہے اور نہ ہی ایمان ہے۔۔۔ تو پھر قوم نہ رہی نا، ریوڑ ہوا انسانوں کا، قائد کی آنکھوں میں موتی جھلمانے لگے کمرے میں ایک بار پھر سکوت طاری ہو گیا
پھر نئی فوجی حکومت نے کیا تیر مارا، محترمہ فاطمہ جناح کے لہجے میں طنز تھا
تیر کیا مارنا تھا، ہماری رہی سہی ساکھ بھی مٹی میں ملا دی گئی، امریکہ میں دو جہاز دو بڑی بلڈنگ سے کیا ٹکرائے کہ امریکہ کو مسلمان دُنیا کو کھنڈر بنانے کا ٹھیکہ مل گیا، مسلمانوں کی کمزوریوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی، امریکہ نے غداروں پر ڈالروں کی بارش کر دی، تو ہم کیوں پیچھے رہتے۔۔۔ ہم نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ جب بھی پاکستان میں فوجی حکومت آئی دنیا میں کچھ ایسا ضرور ہوا جس کی وجہ سے مغرب کو پاکستان کی ضرورت پڑی اور پاکستانی حکمرانوں نے اس کا بھرپور فائدہ اُٹھایا، اسی کی وجہ سے آج ہمارے جتنے بھی حکمران ہیں انکے بچے امریکہ اور مغرب میں بہت آسان زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمارے حکمران دن بہ دن امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عوام غریب تر پروفیسر صاحب، سیاست کی باتیں نہ کریں، یہ درست نہیں ہے، وزیر اعظم نے زہر خند لہجے میں کہا یہ سیاست نہں حقیقت ہے سر، پروفیسر صاحب نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا یاد رکھیے قائد تو کچھ گھنٹوں کے لیے ادھر ہیں، آپ کو جواب دہی کرنا پڑے گی ان الفاظ کی۔۔۔ صدر صاحب بھی وزیر اعظم کے لہجے میں بولے دیکھ لیجیے قائد، آپ نے ہمیں یہ کہا تھا کہ حکمران خادم ہوتے ہیں عوام کے۔۔۔ یہ۔۔۔ میں کیا دیکھوں اور کیا کہوں۔ پی ایم صاحب نے سچ کہا کہ۔۔۔ سیاست حقیقت نہیں ہوتی، مگر حقیقت پر سیاست نہیں کی جا سکتی، میری جیب میں کھوٹے سکے تھے۔۔۔ مگر یہ ہی کھوٹے سکے عالمی طاقتوں کے لیے چمکتی اشرفیاں بن گئے، خیر پھر کیا ہوا اگلے دس سالوں میں۔۔۔ ہونا کیا قائد، ہر آمر کی طرح، فوجی حکومت میں جمہوریت کا تڑکا لگایا گیا اور موقعہ پرست سیاست دان فوجی حکومت کا حصہ بن گئے اور کہا کہ ہم فوجی حکمران کو وردی میں ہزار بار جتوائیں گے۔۔۔اور ایسا ہی ہوا، اور ملک کے دو بڑے لیڈران جو جلا وطن تھے واپس آئے، پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو جو ذولفقار کی بیٹی تھیں اور مسلم لیگ کے نواز شریف۔۔۔ دونوں نے دھشت گردی کی لہر کے باوجود عوامی مہم شروع کی، اور اسی دوران بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا کیا۔۔۔۔ قائد اور انکے ساتھی ایک ساتھ چلا اُٹھے،۔۔۔۔ پھر قتل۔۔۔ اوہ میرے خُدایا۔۔۔ پاکستان۔۔۔ ہے یا کوئی مقتل گاہ۔۔۔۔ جی یہ تو بڑے لوگ تھے جو قتل ہوئے،مگر پچھلے بیس سالوں میں دھشت گردی سے اسی ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے جان گنوائی ہے، ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں روز خودکش دھماکے ہوتے تھے، عوام آج تک حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا خمیزہ بھگت رہے ہیں ہاں جب حاکم۔۔۔ عوام سے الگ ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے، پھر سر انتخابات ہوئے پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی، تو عوام کے لیے انہوں کیا کرنا تھا، عدالتوں میں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مقدمے ہی لڑتے رہے، اور پھر یہ ہی حال آج کی حکومت کا ہے۔۔۔۔ بس ختم؟۔۔۔۔۔ قائد نے بے زار لہجے میں پوچھا جی سر، اب اگر کچھ آپ پوچھنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں یہ بتاؤ اقوام عالم میں ہمارا کیا مقام ہے قائد میں آپ سے سیاسی بات نہٰں کروں گا گو مجھے اپنا انجام معلوم ہو چکا ہے، ہمارا مقام ایک ٹشو پیپر جیسا ہے ٹشو پیپر؟ مطلب؟ جب دُنیا کو ہماری ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں، جب ضرورت ختم ہوتی ہے تو ہمیں فضول کہ کر ڈسٹ بن کی نظر کر دیتے ہیں اور یہ چکر پاکستان کے ساتھ شروع سے ہی چل رہا ہے ہماری معیشت کیسی ہے ہماری معیشت ایک طفیلی معیشت بن چکی ہے، ملک میں کارخانے بند ہو رہے ہیں، ہمارا ہر فرد ایک لاکھ سے اوپر کا مقروض ہے، پہلے امریکہ، پھر روس اور اب چین کا انفلوئنز بڑھ رہا ہے، ہم اس پر خوشیاں مناتے ہیں کہ کوئی باہر سے آ کر ہمارے کام کر دے، خود اپنا کام کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے پروفیسر صاحب، آپ اس سچوئشن کا بہت فائدہ اُٹھا رہے ہیں، پی ایم۔۔۔ کا لہجہ بیبسی سے بھرپور ہے کیا پاکستان میں کچھ بھی مثبت نہیں ہوا ان ستر برسوں میں ہوا، بلکل ہوا، ہم ایٹمی طاقت بنے کیا ایٹمی طاقت بننے سے عوام کی زندگی پر کوئی فرق آیا جی بہت فرق آیا، ہم براہ راست جنگ سے محفوظ ہوئے تو پراکسی وارز کی زد میں آ گئے دوسری ترقی ہمارا میڈیا ہے، جو بہت ہی آزاد ہو چکا ہے آزاد میڈیا ضروری ہے۔۔۔ مگر ذمہ دار میڈیا ہونا چاہیے۔۔۔ سر ہم ذمہ داری نہیں لیتے بلکہ اپنے ذمہ بھی جو ہوتا ہے وہ دوسروں کے ذمہ کر دیتے ہیں یعنی تم لوگ بھی چینی بن گئے ہو؟ چیینی؟ نہیں سر چینی بہت محنتی قوم ہے، آج چین نے بنا لڑے ساری دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے، آج چین دنیا کے ہر کونے میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے چینی اور محنتی؟ یہ تو افیون زدہ قوم ہے، قائد نے حیرت سے پوچھا سر تھی، اب نہیں۔۔۔ ہماری یہ ہی بدقسمتی رہی کہ ہمارے بعد بننے والے ممالک بھی ہم سے آگے ہیں۔۔۔ میرے خیال میں یہ کبھی نہ ختم ہونے والی بحث ہے، وزیر اعظم نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور ویسے بھی قائد کے پاس وقت کم ہے، اس بریفنگ کو اب ختم کردینا چاہیے ہاں۔۔۔ میرے اندر بھی اب ہمت نہیں کہ اتنا سب کچھ سہ سکوں۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔ ستر سالوں میں ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارے قیام کا مقصد کیا تھا، قائد کا لہجہ دکھیا تھا سر آپ کے لیے ایک ضیافت کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں اراکین اسمبلی اور ملک کی نامور شخصیات شامل ہونگی، صدر نے قائد سے کہا نہیں۔۔۔ مجھے ناموروں سے نہیں۔۔۔ عوام سے ملنا ہے، ناموروں کے کارنامے تو میں اب سُن چکا ہوں سر آپ عوام میں نہیں جا سکتے کیوں؟ سر دھشت گردی کی وجہ سے کوئی بھی وی آئی پی عوام میں نہیں جانا چاہتا کیا موت کے ڈر سے؟ جی سر۔۔۔ آپ کو بتایا جا چکا ہے کہ ہمارے کتنے ہی لیڈر قتل ہوئے ہیں۔۔۔ مرے ہوؤں کو کیا مارنا، ہم تو بہت پہلے مر چکے ہیں، اور دشمن میرے بھی تھے۔۔۔ مگر عوام میرے ساتھ تھے، مجھے کبھی بھی عوام میں جا کر خوف نہیں رہا بلکہ مجھے وہ میرے محافظ لگے (آٹھواں حصہ
Leave a Reply