اے ماہ ذیشاں غم جدائی، نہیں، نہیں ہم، نہیں سہیں گے
نہ روک اشکوں کو تو ہمارے، نہیں، نہیں یہ، نہیں رکیں گے
نہیں ستارے، نہیں ہیں ہمدم ، فلک کے ناسور رس رہے ہیں
وہ چاند کا زخم بھی ہے دل پر کہ زخم دل کے سدا رسیں گے
کہ توڑ سر پہ ستم کے پتھر کہ زخم دل پہ لگا تو نشتر
زباں و لب اپنے چپ رہیں گے ، کسی سے شکوہ نہیں کریں گے
فضا کا چہرہ ہے اترا اترا ، زمیں پہ پتے ہیں بکھرے بکھرے
ندی کی آنکھوں میں آنسوؤں کے امنڈتے دھارے سدا بہیں گے
اے ماہ غفراں! اے ماہ ذیشاں! اے ماہ یزداں! اے میرے مہماں
تری جدائی میں جگنوؤں سا، کبھی جلیں گے، کبھی بجھیں گے
ہیں صحن مسجد کے ویراں ویراں، اذاں مؤذن کی لرزاں لرزاں
دھواں دھواں سا ہے نور ہر سو ، یہی مناظر سدا رہیں گے
نور اقبال
جگتدل (مغربی بنگال)
Leave a Reply