Today ePaper
Rahbar e Kisan International

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا گندم سپورٹ پیکج

Articles , Snippets , / Wednesday, April 16th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

گندم کی کاشت پاکستان کے زرعی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ صوبہ پنجاب چونکہ ملکی پیداوار کا تقریباً 70 فیصد گندم مہیا کرتا ہے اس لیے یہاں کے کاشتکاروں کی مالی حالت اور حکومتی پالیسیوں کی سمت براہِ راست قومی غذائی سلامتی سے وابستہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے حالیہ گندم سپورٹ پیکج کا اعلان نہ صرف ایک وقتی سہارا ہے بلکہ ایک وسیع تر زرعی اصلاحاتی منصوبے کی جھلک بھی دیتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں گندم کی کاشت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے مگر جدید زرعی پالیسیوں کی بنیاد 1960 کی دہائی میں اس وقت رکھی گئی تھی جب سبز انقلاب کی بازگشت سنائی دی۔ اس وقت سے لے کر اب تک گندم کی کاشت حکومتی سبسڈی، امدادی قیمت اور مارکیٹ سپورٹ پر انحصار کرتی رہی ہے۔ ماضی میں بروقت ادائیگی، ذخیرہ اندوزی، باربرداری کے اخراجات اور مڈل مین کی اجارہ داری جیسے مسائل نے کاشتکاروں کی کمر توڑی۔ ہر حکومت نے کسانوں سے گندم پالیسی میں اصلاحات کا دعویٰ تو کیا، مگر عملی اقدامات کم ہی دیکھنے میں آئے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی زیرِ قیادت موجودہ حکومت نے گندم کے ساڑھے پانچ لاکھ کاشتکاروں کو براہِ راست مالی امداد دینے کے لیے 15 ارب روپے کے گندم سپورٹ فنڈ کی منظوری دی ہے جو کہ کسان کارڈ کے ذریعے منتقل ہوگا۔ یہ فیصلہ مالی شفافیت اور بدعنوانی کے انسداد کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہے۔
اس پالیسی میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ کی طرف سے دیگر اہم اقدامات میں مندرجہ ذیل اصلاحات شامل ہیں جن میں آبیانہ اور فکس ٹیکس میں چھوٹ سرفہرست ہے۔ یہ رعایت براہِ راست کاشتکار کے مالی بوجھ کو کم کرے گی، خاص طور پر چھوٹے زمینداروں کے لیے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے۔ چار ماہ مفت گندم اسٹوریج کی سہولت بھی شامل ہے۔ جوکہ موسمی اثرات اور مارکیٹ کے دباؤ سے تحفظ فراہم کرنے کا مؤثر طریقہ ہے۔
اس پالیسی میں ای ڈبلیو آر (Electronic Warehouse Receipt) نظام کا نفاذ بھی شامل ہے۔ یہ نظام گندم کو بطور مالیاتی اثاثہ استعمال کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ کسان الیکٹرانک رسید کے ذریعے فوری قرض حاصل کر سکے گا، جو کہ زرعی مالیات میں ایک انقلابی قدم ہے۔
مارک اپ حکومت پنجاب ادا کرے گی، جس کے تحت اسٹوریج فنانسنگ کے لیے 5 ارب روپے کی سبسڈی حکومت دے گی جو کہ ایک بڑی ریلیف ہے۔
فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈرز کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان کو گندم کی لازمی خریداری و ذخیرہ کی شرط کے ساتھ مالی مراعات دینا مارکیٹ نظم و ضبط کے لیے اہم ہے۔
گندم اور آٹے کی بین الاضلاعی نقل و حرکت پر پابندی کا خاتمہ کیا جائے گا۔جوکہ ایک خوش آئند قدم ہے جو مارکیٹ کی روانی اور قیمتوں کے استحکام میں مدد دے گا۔
ایکسپورٹ کے لیے وفاق سے رابطہ کیا جائے گا۔ یہ عالمی مارکیٹ میں پاکستانی گندم کی کھپت کے لیے نئی راہیں کھول سکتا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ کا یہ اقدام بلاشبہ نیت اور نظریے کے اعتبار سے ایک جامع زرعی پیکیج ہے، لیکن اس پر مکمل عمل درآمد کے لیے متعدد چیلنجز بھی درپیش ہوں گے:
ای ڈبلیو آر جیسے جدید نظام کی مؤثر عمل داری کے لیے ضلعی سطح پر تربیت یافتہ عملہ، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور کسانوں کی تکنیکی تربیت ناگزیر ہے۔
گندم کی لازمی خریداری اور اسٹوریج کی 25 فیصد کیپسٹی کو یقینی بنانے کے لیے سخت مانیٹرنگ درکار ہے ورنہ سبسڈی کا فائدہ اشرافیہ ہی اٹھا لے گی۔
نجی ویئر ہاؤسز کی تعمیر کی بھی اشد ضرورت ہے۔بینک آف پنجاب کی فنانسنگ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اس میں شفافیت اور سہل طریقہ کار یقینی بنایا جائے، تاکہ چھوٹے سرمایہ کار بھی شریک ہو سکیں۔
کسان کارڈ کی شمولیت بھی بہت ضروری ہے۔ یہ اقدام کارآمد ثابت ہوگا مگر ماضی میں بھی بایومیٹرک یا کارڈ سسٹم کی تکنیکی رکاوٹوں نے شفافیت کو متاثر کیا تھا۔ اس بار اس پر خاص توجہ دی جائے۔
کسان کو گندم فروخت، اسٹوریج یا قرض کے مراحل میں تاخیر کا سامنا نہ ہو کیونکہ فصل کی قیمت کا تعین بروقت مالی رقوم سے منسلک ہے۔
اس پیکچ کو اگر مکمل دیانتداری، شفافیت اور تیز تر عمل درآمد کے ساتھ نافذ کیا جائے تو پنجاب میں نہ صرف گندم کی پیداوار اور کسان کی خوشحالی بڑھے گی بلکہ زرعی معیشت کی بحالی کا عمل بھی تیز ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ ماڈل دوسرے صوبوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا گندم سپورٹ پیکج پاکستان کی زرعی پالیسی میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا بشرطیکہ اس کے تمام اجزاء پر عملدرآمد شفاف، بروقت اور غیر سیاسی بنیادوں پر کیا جائے۔ گندم کے کاشتکاروں کو مالی تحفظ، مارکیٹ سپورٹ اور موسمی چیلنجز سے بچانے کے لیے یہ اقدامات ایک نئے زرعی عہد کا نقطہ آغاز ہو سکتے ہیں۔ اب یہ حکومت، بیوروکریسی اور کسان طبقے کی باہمی ہم آہنگی پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع ہونے سے کیسے بچاتے ہیں۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International