rki.news
آج کل پاک و ہند کے مابین جنگ کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اگر اب جنگ ہوئی تو دونوں اطراف کے عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ سرکردہ سیاستدان اور اُن کے ہمنوا تو یقیناً محفوظ ترین جگہوں پر چلے جاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد باباۓ قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ناگہانی وفات اور قائدِ ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آنے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا محور صرف ملک و قوم کی معیشت میں برتری لانا ہی ہوتا تو وہ “یا شیخ اپنی اپنی دیکھ” کے مصداق اپنی اور اپنے ہمنواؤں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری اور سکون کے بھی متلاشی ہوتے۔ قیامِ پاکستان میں بھی قربانیاں دینے کے لیے عام عوام پیش پیش تھے اِسی لیے آج ہم فخر سے سر اٹھا کر پاکستانی کہلاتے ہیں جبکہ سیاستدانوں کو حکمرانی کی ہَوس نے ارضِ پاکستان کو دو لخت کر دیا لہذا ہمیں مارشل لاء اور فوجی حکمرانی سے بھی دو چار ہونا پڑا۔ اتنی ترقی ہمارے ملک و قوم نے نہیں کی جتنی ہمارے سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کر چکے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور سرکردہ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ غیر ضروری سرحدی تنازعات میں اُلجھنے کی بجائے اپنے اندرونی مسائل اور معاملات کو افہام و تفہیم اور قانونی بالادستی کے تحت طے کریں۔ مقروض ملک کا سرمایہ غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک لے جانے والوں کو بے نقاب کریں تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کر سکے۔ اگر تمام قوانین کو اِسلامی نظام کے مطابق نہیں کر سکتے تو کم از کم قتل، آبرو ریزی، رشوت ستانی، چوری، ملک سے غداری، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ جیسے جرائم کو اسلامی قوانین کے مطابق لاگو کریں۔
جنگ خود ایک مسئلہ ہے
جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی؟
شہزادہ ریاض
Leave a Reply