Today ePaper
Rahbar e Kisan International

وقف ترمیمی بل 2024

Articles , Snippets , / Sunday, April 6th, 2025

rki.news

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوۓ‌ ۔۔۔۔ تارک قرآں ہوکر

میرے مسلم بھائیو !
وقف ترمیمی بل 2024ء پارلیامنٹ میں لگ پھگ 12 بجے پیش کی گئی جسکی حمایت میں بانجھ پلے اور اسکے الایز نے ووٹ دیا اور حمایت میں پڑے ووٹ مخبلف ووٹوں سے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ بل پاس ہوگیا-
مودی کے حکومت میں انے کے بعد پچھلے دس سالوں میں یہی ہوا ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بناکر نئے نئے ہتھکنڈے اور قانون بنائے گئے۔
۔۔۔۔ نتجہ ظاہر ہے
ہندووادی سیاسی پارٹی بانجھپا اور اسے الائز تو حکومت کے ہی ہیں ۔ رہی بات خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں۔۔۔۔۔۔۔ تو مسلمانوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیٔے کہ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں مسلم مخالف اور دشمن ہیں کسی کی دشمنی بالکل عیاں ہے اور کچھ کی پوشیدہ اور انکے سربراہ اور ممبر واراکین سارے غیر مسلم ہیں تو وہ کبھی بھی ہمارا بھلا سوچنے والے نہیں۔ آخر ہم کیوں کر سیکولر پارٹیوں پر بھروسہ کرلیتے ہیں۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ ہاں کچھ ان میں باضمیر اور حق بولنے والے جو مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں، احتجاج بھی کرتے ہیں مگر افسوس کہ انکی تعداد دریا میں چند قطروں کی مانند ہے۔ جب ہمارے اپنے ہی غداری کرتے آرہے ہیں تو غیروں پر کسی بھی طرح کا بھروسہ کرنا فضول ہی نہیں بیوقوفی ہے۔
حکومت انکی،سرکاری مشینریاں انکی،پولس انتظامیہ انکا، کورٹ کچہری انکی، جج انکے۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا کیا ہے ؟
بس ہم نام کا مسلمان ہیں۔ نہ ہم میں اتحاد ہے،نہ اتفاق ،نہ قومی رہنما، نہ مذہبی رہنما۔۔۔ جتنے بھی ہیں سب سالے ضمیر فروش،بے ایمان اور خود غرض و مفاد پرست۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے صورت حال میں ہمیں اپنے پر ہی بھروسہ کرنا ہوگا۔ جب تک ہم کارزار میں نہیں اترتے تب تک ہمارے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔ ہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ کسی کی بھی میٹھی باتوں میں آجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر نہ دور اندیشی ہے اور حلم و بردباری سے کچھ سوچ وفکر کرنے کی صلاحیت ۔
جو ہوا اچھا ہوا اور آئندہ جو ہوگا اچھا ہوگا۔ میں یہ بات اس لیئے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں بولنا نہیں آتا۔ کب بولنا ہے, کس وقت بولنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سوچ سے ہم کوسوں دور ہیں-
جب بولنا ہوتا ہے تو خاموش رہتے ہیں اور جب خاموش رہنے میں ہماری بہتری ہوتی ہے تو اس وقت صرف چیختے ہیں-
پچھلے دس سالوں سے مودی حکومت کے نشانے پر ہم ہی رہے ہیں اور ملک کے حالات اور مودی حکومت کا منشا یہ بتا رہا ہے کہ کل بھی نشانے پر ہم ہی ہونگے۔ ہمارے مذہب, ہمارے قران پر حملے ہورہے ہیں اور ہم چپ رہے-
ہمارے نبیﷺ اور صحابیات کو دشنام بکا گیا ہم چپ رہے
ہماری مسجدیں توڑی گئیں پھر بھی ہم چپ رہے
ہماری خانقاہیں, ہمارے مدرسے , ہمارے قبرستانوں کو بلڈوزر سے مسمار کردیئے گئے تب بھی چپ ہی رہے ہم
مسلمان بادشاہوں کی یادگاریں, انکی بنوائی ہوئی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا اس وقت بھی ہم چپ تھے
اولیاء کرام کے مزارات ڈھائے گئے تب بھی ہمارے منھ پر تالے لگے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ائے دن ہمارے اوپر مظالم ڈھائے گئے۔ ہمارے ساتھ ناانصافیاں ہوتی رہیں اور ہم خاموشی کا مجسمہ بنے رہے۔ہماری بہن بیٹیوں اور ماؤں کی آبرو لوٹی گئی, ہماری نسل کشی ہوئی اورہم یہ سب دیکھ کر بھی ہمارا خون نہیں کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخر یہ خموشی کب تک۔۔۔۔۔ کیا ہم صرف ظلم و ناانصافی سہنے کے لیئے ہی ہیں-
کیا اسی دن کے لیئے ہم نے بٹوارے کے وقت پاکستان جانے سے انکار کیا تھا؟ کیا یہی دن دیکھنے کے لیئے ہمارے باپ دادا نے انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیئے اپنے خون کی آہوتی دی تھی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ اخر اس کے بدلے ملا کیا ہے یا ملتا ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیا کبھی ہم ہندستانی مسلمانوں نے اس نشیب وفراز کو پڑھنا چاہا ۔ یا اس سے نبرد آزمائی کے لیئے کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل تیار کیا۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم ان باتوں اور سوالوں پر تفکرات کرتے ہیں تو اسکے جواب صرف ” ںفی” کے علاوہ کچھ نہیں ملتے ۔ جب ہم خود ہی ان تمام مظالم اور ناانصافیوں کا خوگر ہوکر محض جینا چاہتے ہیں تو ہماری مدد کون کرنے آئیگا۔ اللہ رب العزت کے احکام سے ہمیں 36 کا آکڑا رہا ہے۔ تو آخر ہم کس منھ سے اس سے مدد کی امید رکھیں۔ ہم نے قران و حدیث اور احکام الہیہ پر کبھی عمل نہیں کیا۔ قران سے دوری, نماز سے دوری, نہ مکمل روزہ ہماری زندگی میں ‘ زکواة و صدقات کی رٹ صرف ہم زبانی کرتے ہیں۔ دین میں جب ہم مکمل طور پر نہیں اتر پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو نتائج کبھی اچھے ن
اب بھی وقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچو ! سوچو ! اور سوچو ! میرے مسلمان بھائیو !
امت مسلمہ کی تقریباََ ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب اس نے قرآن کریم کو اپنا ہادی و رہ نما بنایا، اسے سینے سے لگائے رکھا، اس سے روشنی حاصل کرتی رہی، اس کے احکام و فرامین کو اپنی زندگی میں نافذ کیا اور ان پر عمل پیرا رہی اس وقت تک اقوامِ عالم کی امامت و قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں رہی، کامیابی و کامرانی نے اس کے قدم چومے اور اس کی عظمت و رفعت مسلّم رہی،لیکن جب سے اس امت کا اللہ کی کتاب سے رشتہ کمزور ہوا اور اسے پسِ پشت ڈال دیا اور قرآنی تعلیمات کی جگہ نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور رسم و رواج نے لے لی تو اس کی ہوانکل گئی، اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا، ذلّت و نکبت اور پس ماندگی و شکست خوردگی اس کا مقدّر بن گئی،یقیناََ یہ قرآن سے اعراض و گریز کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دنیا ہی میں دے رہا ہے۔راہِ نجات رجوع الی القرآن ہی ہے، اس لیے قرآن کو سمجھ لینا ہی کافی نہیں ہے، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور جب تک مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن کے سانچے میں نہیں ڈھلے گی، ان کے شب و روز کے معمولات قرآنی ہدایات کے تابع نہیں ہوں گے اور مسلمان قرآن کو اپنا رہنمائے زندگی تسلیم نہیں کریں گے، ان کی ذلت و ادبار کا یہ دور ختم نہیں ہو گا، ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی اور ان کی وہ عظمت رفتہ بحال نہیں ہو گی جس کے وہ خواہش مند ہیں، اگر ہم نے یقین و ایمان سے تلاوت قرآن کی اور تعلیمات قرآن پر عمل کیا تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ امت مسلمہ کے عروج و زوال کی اس تاریخ پر رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذا الکِتاب اَقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ۔”اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے“(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلّمہ، حدیث نمبر:817)
اسی مفہوم کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر،
اور ہم خوار ہوئے۔۔۔۔۔۔ تارک قرآں ہو کر

اج بھی جو ابراہیم ساایماں پیدا !
اگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اگر ہماری زندگی میں قرآن داخل ہوجائے اور اس کے سانچے میں ہم ڈھل جائیں تو کیا دنیا کی کوئی طاقت ہماری چمکتی ہوئی تقدیر کو بدل سکتی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرن اول کی طرح ہمارا رعب ہو اور ہم عزت کی زندگی گزاریں تو اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ قرآن کو اپنے سینے سے لگا ئیں اور اسے اپنا دستورِ حیات بنالیں۔اللہ پاک ہم سبھوں کو عمل کی توفیق بخشے۔…….. آمین

حیدر علی
گھسڑی (ہوڑہ)
مغربی بنگال


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International