Today ePaper
Rahbar e Kisan International

وقف (ترمیمی) بل 2024 سے مسلمانوں کو درپیش ممکنہ نقصانات

Articles , / Wednesday, March 26th, 2025

تحریر: خورشید ملک، کولکاتہ

وقف بل پر سیاست خوب ہو رہی ہے۔ اس متنازعہ بل پر مسلمانوں اور سیاسی گلیاروں میں خوب چرچے ہو رہے ہیں ۔ میں نے کئی لوگوں سے جاننے کی کوشش کی کہ یہ وقف ترمیمی بل ہے کیا اور اس سے مسلمانوں کو کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ۔ مجھے اس بات سے قطعی تعجب نہیں ہوا کہ قوم کے بیشتر افراد اس بارے میں صرف اتنا جانتے ہیں کہ مذکورہ بل سے عام مسلمانوں کو نقصان ہو گا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اس بل سے ہونے والے نقصانات سے قوم کو آگاہ کروں ۔
وقف (ترمیمی) بل 2024 سے مسلمانوں کو درپیش ممکنہ نقصانات کو پوائنٹ وائز اس طرح سمجھا جا سکتا ہے:

1- مذہبی خودمختاری میں کمی: وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت اور سرکاری افسران کو زیادہ اختیار دینے سے شرعی قوانین کے تحت وقف املاک کے انتظام پر کمیونٹی کا کنٹرول کم ہو سکتا ہے۔اسے مذہبی معاملات میں مداخلت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو مسلم کمیونٹی کی خودمختاری کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

2- وقف املاک کا غلط استعمال یا ضائع ہونا: نئے رجسٹریشن اور تصدیقی عمل سے تاریخی وقف املاک پر تنازعات بڑھ سکتے ہیں، جس سے انہیں سرکاری یا نجی مفادات کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ خدشات بھی ہیں کہ یہ بل سرکار کو متنازعہ زمینوں کو دوبارہ دعویٰ کرنے کی اجازت دے سکتا ہے، جو مساجد یا دیگر مقدس مقامات کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔

3- خیراتی یا امدادی خدمات میں رکاوٹ : وقف املاک سے چلنے والے مدرسوں، مساجد، یتیم خانوں اور صحت کے مراکز کے فنڈز یا انتظام پر اثر پڑ سکتا ہے، جس سے غریب مسلمانوں کو بنیادی سہولیات سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ انتظامی پیچیدگیوں سے ان اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔

4- بدعنوانی کے نام پر پریشانی: شفافیت کے نام پر نئے ضابطوں سے وقف بورڈز کے اراکین یا مقامی کمیونٹی کو غیر ضروری جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے مسلم اداروں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے اور ان کے خلاف تعصب کا تاثر پیدا ہو سکتا ہے۔

5- سماجی اور سیاسی تناؤ: بل کو مسلم مخالف قانون کے طور پر دیکھے جانے سے کمیونٹی میں عدم اعتماد اور غصہ بڑھ سکتا ہے، جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔سیاسی طور پر اسے مسلم ووٹ بینک کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے کمیونٹی کی نمائندگی متاثر ہو سکتی ہے۔

6- قانونی اور مالی بوجھ: نئے ضابطوں کے تحت وقف املاک کی دوبارہ رجسٹریشن یا تنازعات کے حل کے لئے قانونی چارہ جوئی کی ضرورت پڑ سکتی ہے، جو مالی اور وقت کے لحاظ سے بوجھل یا مشکل ہو سکتا ہے۔چھوٹے وقف اداروں کے پاس اس کے لئے وسائل نہیں ہوں گے، جس سے ان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ یہ نقصانات اس بات پر منحصر ہیں کہ بل کے نفاذ کے دوران اس کی شقوں کو کس طرح لاگو کیا جاتا ہے اور مسلم کمیونٹی کے تحفظات کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔
ملک میں حالیہ وقف قانون تنازعات نے سماجی اور سیاسی حلقوں میں شدید بحث کو جنم دیا ہے۔ 2024 میں پیش کیا گیا “وقف ترمیمی بل”، جو ابھی تک 25 مارچ 2025 تک منظور نہیں ہوا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ وقف املاک کے انتظام و انصرام میں شفافیت اور جوابدہی لانے کی ایک کوشش ہے۔ حکومت اسے آئینی برابری اور جدید تقاضوں کے مطابق اصلاحات کا حصہ سمجھتی ہے تاہم، مسلم تنظیمیں، جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اسے وقف املاک کو “ہڑپنے” اور مذہبی خودمختاری پر حملہ قرار دیتی ہیں۔ مسلم دانشوروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ بل ملک کے سیکولر ڈھانچے اور اقلیتی حقوق کے حوالے سے گہرے سوالات اٹھا رہا ہے۔

باور رہے کہ یہ بل بھارت کے سیکولر ڈھانچے،اقلیتی حقوق اور وقف کی 9.4 لاکھ ایکڑ سے زائد جائیدادوں کے مستقبل کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا رہا ہے، جن کی مالیت ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International